• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 171629

    عنوان: پوری پروپرٹی مہر میں دیدینا كیسا ہے؟

    سوال: حضرت ایک مسئلہ پوچھنا تھا ایک شخص کا کوئی اولاد نہیں ہے اور انہوں نے اپنی حیات میں تندرستی کی حالت میں پوری پراپرٹی کو اپنی بیوی کو مہر میں دے دیا اسلام کی رو سے یہ مہر جائز ہے یا نہیں؟ لیکن ان کی کوئی تحریری شکل میں موجود نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 171629

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1335-1233/L=1/1441

    صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے اپنی پوری پراپرٹی بیوی کو مہر میں دیدیا اور بیوی نے بھی قبول کرلیا تو مہر صحیح اور لازم ہوگیا اور اس پوری پراپرٹی میں بیوی کی ملکیت ثابت ہوگئی؛ البتہ اس طرح کرنا صحیح نہیں کہ اس میں دیگر ورثاء کو ان کی وراثت سے محروم کرنا ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔

    الزیادة في المہر صحیحیة حال قیام النکاح عند علمائنا الثلاثة کذا في المحیط: فإذا زادہا فی المہر بعد العقد لزمتہ الزیادة، کذا في السراج الوہاج․ ہذا إذا قبلت المرأة الزیادة سواء کانت من جنس المہر أو لا من زوج أو من ولي، کذا في النہر الفائق (الفتاوی الہندیة: ۱/ ۲۱۲، ولأبي حنیفة أن المرأة تملک المہر قبل القبض ملکا تاما إذ الملک نوعان: ملک رقبة، وملک ید، وہو ملک التصرف، ولا شک أن ملک الرقبة ثابت لہا قبل القبض، وکذلک ملک التصرف؛ لأنہا تملک الصرف في المہر قبل القبض من کل وجہ (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ۲/۳۱۳، الناشر: دار الکتب العلمیة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند