• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 1532

    عنوان:

    وراثت سے متعلق 

    سوال:

    زید کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں سے ایک بھائی کا انتقال ہو چکا ہے۔ جس وقت بھائی کا انتقال ہو اتھا اس وقت زید کی صرف والدہ زندہ تھیں ، والدگذرچکے تھے۔جس بھائی کا انتقال ہواہے ان سے ایک بیٹا اوردو بیٹیاں ہیں۔ اب زید کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔زید کی پانچ اولاد ہیں اور سبھی بیٹیاں ہی ہیں۔ اگر زید اپنی جائداد کی تقسیم کرنا چاہتا ہو تو کیسے کرے؟ کیا شرعی حیثیت سے پو ری کی پوری جائداد بیٹیوں میں ہی تقسیم ہو گی یا زید کے بہن بھائی کابھی اس میں کچھ حصہ ہوگا؟ اس طرح سے زید کے والد کی جو جائداد ہے اس کی تقسیم بھی کرنی ہے تو کیسے کر ناچاہئے؟

    جواب نمبر: 1532

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 516/ م= 511/ م

     

    اگر زید زندگی میں اپنی جائیداد کو تقسیم کردینا چاہتا ہے تو شرعی اعتبار سے زید کے ذمہ پوری جائیداد کی تقسیم لازم و واجب نہیں، خواہ پوری تقسیم کردے یا آدھی کرے یا جتنی چاہے اتنی کرے ہرطرح کا اختیار ہے، البتہ اتنی بات کا خیال رکھے کہ وہ اپنی جائیداد کا جتنا حصہ بھی اولاد کے درمیان تقسیم کرے اس میں مساوات (برابری) کو قائم رکھے یعنی صورت مذکورہ میں ایک بیٹی کو جتنا حصہ دے اتنا ہی دوسری بیٹی کو بھی دے اسی طرح تمام بیٹوں کو برابر برابر دے۔ بھائی بہنوں کو بھی دینا لازم نہیں، ہاں اگر اللہ نے اتنا دیا ہے کہ بھائی بہنوں کو بھی دے سکتا ہے تو دینا چاہیے، اس میں ہبہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ہے اور بھائی بہنوں کا حصہ بھی اس صورت میں متعین نہیں، اپنی ضرورت اور اپنی زوجہ کی ضرورت کا حصہ رکھ کر اور اپنی اولاد کو جتنا جتنا حصہ دینا چاہتا ہے ان کو دے کر پھر بھی جائیداد کا کچھ حصہ بچتا ہے تو اپنی مرضی سے اس کو بھائی بہن میں تقسیم کرے۔

    زید کے والد کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے یہ وضاحت مطلوب ہے کہ زید کے بھائی کے انتقال کے وقت اس بھائی کی بیوی حیات تھی یا پہلے ہی انتقال کرچکی تھی؟ اسی طرح زید کی والدہ کا جس وقت انتقال ہوا اس وقت والدہ کے والدین اور اولاد میں سے کون کون حیات تھے؟ ان امور کی وضاحت فرمائی جائے پھر والد زید کی جائیداد کی تقسیم شرعی تحریر کی جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند