• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 175333

    عنوان: خوف خداوندی میں انتقال کرنے والے ایک نو جوان کے واقعے کی تحقیق

    سوال: برائے مہربانی اس واقعے کی تصدیق فرمائیں کیا یہ دُرست ہے۔ حضرت یحییٰ بن ایوب خزاعی سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک پرہیز گار جوان تھا، وہ مسجد میں گوشہ نشین رہتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وہ شخص بہت پسند تھا۔ اس جوان کا بوڑھا باپ زندہ تھا اور وہ شخص عشاء کے بعد اپنے بوڑھے باپ سے ملنے روزانہ جایا کرتا تھا۔ راستہ میں ایک عورت کا مکان تھا، وہ اس جوان پر فریفتہ ہو گئی اور بہکانے لگی، روزانہ دروازے پر کھڑی رہتی اور جوان کو دیکھ کر بہکایا کرتی۔ ایک رات اس شخص کا گزر ہوا تو اس عورت نے بہکانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ شخص اس کے پیچھے ہو گیا،جب وہ اس عورت کے دروازے پر پہنچا تو پہلے عورت اپنے مکان میں داخل ہو گئی پھر یہ شخص بھی داخل ہو نے لگا، اچانک اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور یہ آیت اس کی زبان سے بے ساختہ جاری ہو گئی ۔ اِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوا اِذَا مَسَّھُم طَائِف مِّنَ الشَّیطَانِ تَذَکَّرُوا فَاِذَا ھُم مُبصِرُونَ (اعراف201) بے شک جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان چھوتا ہے وہ چونک جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اور پھر غش کھا کر وہیں دروازے پر گر پڑا۔ اندر سے عورت آئی، یہ دیکھ کر کہ جوان اس کے دروازے پر بے ہوش پڑا ہے، اس کو اپنے اوپر الزام آنے کا اندیشہ ہوا۔ چنانچہ اس نے اپنی ایک لونڈی کی مدد سے اس جوان مرد کو وہاں سے اٹھا کر اس کے دروازے پر ڈال دیا۔ ادھر بوڑھا باپ اپنے لڑکے کی آمد کا منتظر تھا، جب بہت دیر تک وہ نہ آیا تو اس کی تلاش میں گھر سے نکلا، دیکھا کہ دروازے پر بے ہوش پڑا ہے۔ بوڑھے نے اپنے گھر والوں کو بلایا، وہ اس کو اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے گئے۔ رات کو وہ جوان ہوش میں آیا۔ باپ نے پوچھا بیٹا! تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے جواب دیا، خیریت ہے۔ باپ نے واقعہ کی حقیقت دریافت کی تو اس نے پورا واقعہ بیان کر دیا،پھر باپ نے پوچھا وہ کون سی آیت تھی جو تو نے پڑھی تھی؟ یہ سن کر بیٹے نے مذکورہ بالا آیت پڑھ کر سنا دی اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا، اس کو ہلایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکا ہے، چنانچہ رات ہی کو دفن کر دیا گیا۔ جب صبح ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے انتقال کی خبرملی تو مرحوم کے بوڑھے باپ کے پاس تعزیت کیلئے گئے، تعزیت کے بعد شکایت کی کہ مجھے خبر کیوں نہ دی۔ اس نے کہا امیر المومنین!رات ہونے کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔ قبر پر جا کر فرمایا، اے شخص وَلِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ اور اس شخص کیلئے جو خدا سے ڈرتا ہے دو باغ ہیں(الرحمن) اس شخص نے قبر کے اندر سے جواب دیا۔ یَا عُمَرُ قَد اَعطَانِیھَا رَبِّی فِی الجَنَّةِ۔اے عمر اللہ نے مجھے دونوں جنتیں دے دی ہیں۔

    جواب نمبر: 175333

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:312-253/N=4/1441

    جی ہاں! یہ واقعہ صحیح ہے، علامہ ابن عساکرنے تاریخ دمشق (۴۵: ۴۵۰، مطبوعہ: دار الفکر للطباعة والنشروالتوزیع)میں ابو الحسن عمرو بن جامع کے ترجمہ میں نقل فرمایا ہے اور حافظ ابن کثیرنے بھی ابن عساکر ہی کے حوالہ سے اپنی تفسیر (۳: ۵۳۴، مطبوعہ: دار طیبة للنشر والتوزیع، الریاض) میں سورہ اعراف، آیت:۲۰۱کے ذیل میں اختصار کے ساتھ نقل فرمایا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند