• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 146871

    عنوان: مولانا حبیب احمد کیرانوی کے احوال درکار ہیں

    سوال: بندہ کو مولانا حبیب احمد کیرانونی کے حالات کے متعلق راہنمائی درکار ہے ،یہاں پاکستان میں کسی ایسے مواد تک رسائی نہیں ہو سکی،ہندوستان میں کس سے ان کے حالات اور سوانح مل سکتے ہیں،کوئی پتہ ہو تو بھیج دیں،اور اگر آپ اس معاملے میں خود کوئی رہنمائی کر سکیں تو ضرور کر دیں،اللہ آپ کا حامی وناصرہو،ضیائالدین خادم دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور۔بندہ اپنی میل آئی ڈی پر جواب ملنے سے سہولت میں رہے گا۔

    جواب نمبر: 146871

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 257-308/Sn=4/1438

    مولانا حبیب احمد صاحب کیرانوی ررحمہ اللہ کی مختصر سوانح عمری پر مشتمل ”کاروانِ رفتہ“ (موٴلفہ مولانا اسیر ادروی صاحب) سے ایک صفحہ (ص: ۷۵) ارسال ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں اور مزید عرض ہے کہ حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ ”اعلاء السنن“ پر ایک طویل مقدمہ بہ عنوان ”فوائد فی علم الفقہ“ بھی تحریر کیا، نیز انھوں نے ”الدین القیم“ کے عنوان سے علامہ ابن القیم کی تقلید کے موضوع پر تردید بھی لکھی ہے۔

    ------------------------------

    مولانا حبیب احمد کیرانوی

    ولادت کیرانہ ضلع مظفرنگر

    متعدد مدارس میں تعلیم حاصل کی، فراعت کے بعد مدرسہ یوسفیہ مینڈھو ضلع علی گڑھ میں صدر المدرسین تھے، ۲۳۳۴ھ میں مدرسہ امداد العلوم تھانہ بھون میں مدرس ہوئے، مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں لمبے عرصے تک رہے چونکہ بہت ہی ذی استعداد اور ذہن وفطین تھے اور مطالعہ بہت وسیع تھا اس لیے حضرت تھانوی نے ان کو اپنا معاون بنالیا تھا، حوادث الفتاوی، ترجیح الراجح، ”بہشتی زیور“ تفسیر بیان القرآن اور امداد الفتاوی پر مولانا تھانوی کے حکم سے نظر ثانی کی، بہت سے اضافے کیے اور اصلاحات کیں، ضمیمے اور تتمے لکھے اور ۱۳۳۴ھ ہی میں آپ نے مولانا تھانوی کی تفسیر بیان القرآن پر حواشی لکھے، ۱۳۶۱ھ تک ان کے مضامین اہم موضوعات پر رسالوں میں شائع ہوتے رہے، مستقل تصانیف بھی آپ کی یادگار ہیں بالخصوص ان کی تفسیر ”حل القرآن“ اردو کی بہترین تفسیروں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے۔ یہ تفسیر ۱۶۵۰صفحات پر مشتمل ہے اور مولانا تھانوی نے اس کو حرفاً حرفاً دیکھا اور پڑھا ہے اور ان کی رائے تفسیر کے ساتھ ہی چھپی ہے، شیعوں اور قادیانیوں کے رد میں دو کتابیں ان کے قلم سے ہیں، چھوٹے چھوٹے کئی رسالے بھی اہم مسائل پر لکھے ہیں۔

    وفات ربیع الاول ۱۳۶۶ھ جنوری ۱۹۴۷ء (مدفن کیرانہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند