عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 172981
جواب نمبر: 172981
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1171-217T/sn=1/1440
جدہ میقات کے اندر ہے اور میقات کے اندر ( خواہ حل ہو یا حرم)رہنے والے کو گر اس سال حج کا ارادہ ہو تو اس کے لیے عمرہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اگر عمرہ کرلے تو اسے چاہیے کہ اس سال حج نہ کرے؛ بلکہ آئندہ کرے؛ باقی اگر اسی سال حج کرلے گا تو فریضہٴ حج ادا ہوجائے گا؛ لیکن اس پر دم واجب ہوگا۔اب جب کہ حج کا زمانہ گزر گیا تو اگر آپ نے اس سال حج کیا ہے خواہ افراد، تمتع، قران کسی بھی نیت سے کیا ہو حج ادا ہوگیا؛ البتہ آپ پر شرعا توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ ایک دم بھی لازم ہے۔
. . . . یزاد علی الأیام الخمسة ما فی اللباب وغیرہ من کراہة فعلہا فی أشہرالحج لأہل مکة ، ومن بمعناہم أی من المقیمین ، ومن فی داخل المیقات؛ لأن الغالب علیہم أن یحجوا فی سنتہم ، فیکونوا متمتعین ، وہم عن التمتع ممنوعون، وإلا فلا منع للمکی عن العمرة المفردة فی أشہرالحج، إذا لم یحج فی تلک السنة، ومن خالف فعلیہ البیان شرح اللباب، ومثلہ فی البحر. (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 477، ط: زکریا، دیوبند) قال العلامة النسفی رحمہ اللہ تعالی فی التیسیر: إن حاضری المسجد الحرام ینبغی لہم أن یعتمروا فی غیر أشہرالحج ، ویفردوا أشہر الحج للحج ، وفی شرح الإسبحابی علی مختصر الطحاوی: وإنما لہم أن یفردوا العمرة أو الحج فإن قارنوا أو تمتعوا فقد أساؤوا ویجب علیہم الدم لإساء تہم ( غنیة الناسک، ص: 283،ط: سہارنفور)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند