عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 167854
جواب نمبر: 167854
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:493-435/L=5/1440
افضل یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسے شخص کو بھیجا جائے جو جانکار تجربہ کار اور دیانت دارہو اور جو اپنا حج پہلے کرچکا ہو؛ لیکن اگر اپنا حج فرض ادا کئے بغیر بھی کوئی شخص دوسرے کی طرف سے حج بدل کرلے تو بھی صحیح ہوجاتا ہے ؛ البتہ اگر مستطیع شخص اپنا حج فرض ادا کرنے کے بجائے دوسرے کی طرف سے حج بدل کے لئے جائے اس کا یہ عمل مکروہ تحریمی ہے ، اور غیر مستطیع شخص اگر ایسا کرے تو یہ خلافِ اولیٰ ہے ؛ لیکن حج بدل بہر دو صورت ادا ہوجائے گا؛ لہذا آپ اپنے والد کی طرف سے حج بدل کرسکتے ہیں ؛البتہ اگر آپ پر حج فرض ہوچکاہے تو آپ کا حج بدل کے لیے جانا مکروہِ تحریمی ہوگا ایسی صورت میں آپ کو چاہیے کہ پہلے اپنا حجِ فرض ادا کریں اور پھر والد کی طرف سے حج بد ل کریں۔ قال فی الفتح والبحر: والحق أنہا تنزیہیة للاٰمر لقولہم: والأفضل إحجاج الحر العالم بالمناسک الذی حج عن نفسہ حجة الإسلام تحریمیة علی الصرورة المامور إن کان بعد تحقق الوجوب علیہ بملک الزاد والراحلة والصحة؛ لأنہ یتضیق علیہ والحالة ہٰذہ فی أول سنی الإمکان فیأثم بترکہ۔ وکذا فی کافی أبی الفضل: قال: إن کان بعد تحقق الوجوب علیہ بملک الزاد والراحلة والصحة فہو مکروہ کراہة تحریم۔ (غنیة الناسک / باب الحج عن الغیر ۳۳۸إدارة القرآن کراچی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند