• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 165013

    عنوان: ماں باپ كا حج بدل مقدم ہے یا بیٹے اور اس كی بیوی كو حج كرانا؟

    سوال: ہمارے ابو ابھی سرکاری ملازم ہیں اور ہمارا اسکول بھی چلتا ہے۔ میں اس اسکول میں نگراں ہوں۔ ابھی شروعات ہے۔ اسکول کا سارا خرچ ابو کرتے ہیں اور میں اس اسکول میں بطور نگراں ہوں تو میرا خرچ بھی ابو ہی کرتے ہیں کیونکہ ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ابو کا حج ہو چکا ۲۰۱۰ء میں امی کے ساتھ پر ابو اگلے سال ریٹائر ہو رہے ہیں انہوں نے نیت کی ہے کہ وہ حج بدل کریں گے اپنے امی ابو یعنی میرے دادا دادی کی طرف سے۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرے ابو کا حج بدل کرنے میں زیادہ نفع ہے یا پھر میں اور میری بیوی کا حج کرنے میں زیادہ نفع ہوگا؟

    جواب نمبر: 165013

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1566-1361/H=1/1440

    ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اپنی ذتی ملکیت میں اتنا مال نہیں ہے کہ جس کہ وجہ سے آپ اور آپ کی بیوی پر حج فرض ہو اگر ایسا ہی ہے اور والد صاحب چاہتے ہیں کہ اپنے ماں باپ (آپ کے دادا دادی مرحومان) کی طرف سے حج بدل کرلیں یا کرادیں تو اس میں کچھ حرج نہیں بلکہ یہ مقدم و بہتر ہے کہ آپ اور آپ کی بیوی (بیٹے اور بہو) کو حج کرانے سے پہلے اپنے والدین مرحومین کا حج بدل کرلیں یا کرادیں اگر آپ کے اور آپ کی بیوی کے پاس اپنا ذاتی مملوکہ اتنا مال ہے کہ جس کی وجہ سے آپ دونوں پر حج کرنا فرض ہے تو بجائے والد صاحب سے رقم لے کر حج کرنے کے اپنے اپنے ذاتی مال سے پہلی فرصت میں حج اداء کرنے کی سعی کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند