• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 170781

    عنوان: كیا صلح كرانے كے لیے جھوٹ بولا جاسكتا ہے؟

    سوال: ام حمید بن عبدالرحمٰن (ام کلثوم) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے جھوٹ نہیں بولا جس نے دو آدمیوں میں صلح کرانے کے لیے کوئی بات خود سے بنا کر کہی۔ احمد بن محمد اور مسدد کی روایت میں ہے، وہ جھوٹا نہیں ہے: جس نے لوگوں میں صلح کرائی اور کوئی اچھی بات کہی یا کوئی اچھی بات پہنچائی ۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس پے عمل کرنے کی کیا صورت ہوگی ؟ذرا تفصیل سے جواب دیں اللہ آپ کو جزائے۔

    جواب نمبر: 170781

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:862-726/sd=11/1440

    مشہور حدیث ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لیس بالکاذب من أصلح بین الناس، فقال خیرا أو نما خیرا، وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان معاملات کو سنوارتا ہے، پس وہ کوئی بھلی بات کہتا ہے یا وہ کوئی بھلی بات منسوب کرتا ہے، اس مضمون کی حدیث الفاظ کے فرق کے ساتھ دوسری سند سے بھی وارد ہوئی ہیں، سب کا حاصل یہ ہے کہ باہم مصالحت کی دین اسلام میں اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے اگر بظاہر جھوٹ بولنے کی ضرورت پڑے، تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ صلح کے مقصد سے صریح جھوٹ بولنا جائز ہے یا صرف توریہ کی گنجائش ہے؟ تفصیلی بحث ترمذی شریف کی شرح تحفة الالمعی جلد :۵، صفحہ ۲۸۰تا ۲۸۵موجود ہے، ملاحظہ فرمالیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند