• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 51536

    عنوان: مدرسة البنات كے بارے میں

    سوال: مروجہ مدرسۃ البنات کی حکم کیا ہے ؟ اگر جائز ہو تو بالشرائط یا بغیر شرائط ؟ بالتفصیل مع الدلائل جاننا چاہتا ہوں – اميد کہ جلدى سے فتوى ارسال کرے - وفقكم الله تعالى – آمين =

    جواب نمبر: 51536

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 800-262/L=6/1435-U اسلام کی نظر میں دینی تعلیم مرد وعورت دونوں کے لیے یکساں طور پر مطلوب ہے، اور بنیادی عقائد، فرائض اورحلال حرام کا جاننا ہرمرد وعورت پر فرض ہے، قرآن کریم نے علم کوانسانوں کے لیے بطور انعام الٰہی کے بیان فرمایا ہے اوراس میں کہیں بھی مردوں کی تخصیص نہیں ہے،نیز مستند احادیث میں عورتوں اور اپنے اہل وعیال کو تعلیم دینے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری کتاب العلم (۱/۱۹) میں ہے: قال مالک بن الحویرث: قال لنا رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- ارجعوا إلی أہلیکم فعلموہم بلکہ تعلیم کے لیے عورتوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور آپ علیہ السلام کا ان کی درخواست پر ان کی تعلیم کے لیے ایک دن مخصوص کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے،اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (۱/۲۰) میں ہل یجعل للناس یوماً علی حدة کے عنوان سے ایک باب قائم فرمایا ہے اور اس کے تحت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں، نیز تجربہ سے ثابت ہے کہ اجتماعی تعلیم جس قدر مفید ہوتی ہے انفرادی تعلیم اتنی مفید نہیں ہوتی، اس لیے مدارسِ نسواں کا قائم کرنا اور لڑکیوں وعورتوں کا تعلیم وتعلم کے لیے وہاں جانا اوران کا اپنی صنف کے مطابق علوم وفنون سیکھنا جائز اور مستحسن ہے اس لیے کہ اس کا مبنی تعلیم وتعلم کی تنظیم وتشکیل ہے، البتہ مدارسِ نسواں میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی بہرحال لازم ہے، جہاں یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اور مباح ہوگا اور جہاں یہ شرائط مفقود ہوں گی وہاں خواتین کا تعلیم کے لیے جانا ناجائز ہوگا، وہ شرائط درج ذیل ہیں: (۱) خواتین کی تعلیم گاہیں اور اسکول وکالج صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں،مخلوط تعلیم نہ ہو اور مردوں کا ان تعلیم گاہوں میں آنا جانا اورعمل دخل ہرگز نہ ہو، مدرسہ کا جائے وقوع فتنہ فساد اور اس کے امکان سے بھی محفوظ ہو۔ (۲) ان تعلیم گاہوں تک خواتین کی آمد ورفت کا شرعی پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہو کہ کسی مرحلہ میں بھی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ (۳) نیک کردار، پاک دامن عورتوں کو تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو بدرجہٴ مجبوری نیک صالح اور قابل اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں۔ (۴) مدرسہ کے حالات کی کڑی نگرانی اور مفاسد وفتن کی روک تھام کا اہتمام بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہو۔ (۵) اگر کوئی مدرسہ شرعی مسافت پر ہو تو وہاں جانے کے لیے عورت کے ساتھ اس کا محرم بھی ہو۔ (۶) مدرسہ والوں کے عقائد اہل سنت والجماعت کے عقائد کے موافق ہوں تاکہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے سے عقائد خراب نہ ہوں۔ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ اگر کسی جگہ تعلیم دی جاتی ہو تو وہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانا جائز اورمباح ہوگا۔ واضح رہے کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کوشش کریں کہ کم سے کم عمر میں ہماری لڑکی زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرلے؛ کیوں کہ بڑی لڑکیوں کو دور دراز بھیجنے میں مفاسد ہیں اس لیے بالکل شروع ہی سے ان کی تعلیم کی طرف توجہ دی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند