معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 157358
جواب نمبر: 157358
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:364-302/N=4/1439
(۱): ولادت سے پہلے لڑکے کا ایک اچھا نام اور لڑکی کا ایک اچھا نام منتخب کرلیں اور پیدائش کے بعد وہ نام رکھ دیں ورنہ ولادت کے فوراً بعد اذان واقامت کے ساتھ نام رکھنا ضروری نہیں ہے، ساتویں دن تک کبھی بھی نام رکھ سکتے ہیں، پس ایسی صورت میں اذان واقامت کے ساتھ نام نہ رکھیں، چھ سات روز تک غور وفکر کرلیں اور ساتوین دن (عقیقہ کے دن)کوئی اچھا نام کھ دیں، ساتویں دن سے زیادہ تاخیربہترومناسب نہیں اگرچہ جائز ہے۔
وقد روي عن عمرو بن شعیبأن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أمر بالعقیقة یوم السابع المولود وتسمیتہ، قال ابن حزم: ھذا مرسل، قلت: رواہ الترمذي عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أمرني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتسمیة المولود لسابعہ، وھذا موصول، قال الحافظ فی الفتح (۹: ۵۰۸):وفی الطبراني عن ابن عمر رفعہ إذا کان یوم السابع للمولود فأھریقوا عنہ دماً وأمیطوا عنہ الأذی وسموہ، وسندہ حسن اھ، قلت: والمراد - واللہ أعلم-أن لا توٴخر التسمیة عن السابع فقد عرفت أنہ صلی اللہ علیہ وسلم سمی ابنہ إبراہیم لیلة ولد، وھو متفق علیہ (إعلاء السنن ۱۷: ۲۲۱، ۲۲۲، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشي)۔
(۲): عِزَّةٌ: اس کے معنی ہیں: عزت، یہ نام رکھ سکتے ہیں، جائز ہے؛ البتہ اگر کوئی دوسرا ایسا نام رکھا جائے، جس میں تواضع اور انکساری کے معنی ہوں یا وہ صحابیات وتابعیات وغیرہ میں سے کسی کے نام پر ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند