• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 149983

    عنوان: وہاٹس اَیپ پر دینی مسائل دریافت كرنا؟

    سوال: حضرت میں ایک ایسی طبیعت اور مزاج کا انسان ہوں کہ نئے لوگوں سے ملنے میں جھجھک محسوس کرتا ہوں، میں اپنی زندگی میں کام آنے والے مسائل دینی و دنیاوی جس میں مجھے اصلاح کی درکار ہوتی ہے یا کوئی مسئلہ مجھے معلوم کرنا ہو تو اُسے میں پہلے خود انٹرنیٹ پر تلاش کرتا ہوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب کتابیں ڈاوٴن لوڈ کرکے پڑھتا ہوں، اور ان میں اپنے مسائل کو تلاشتا ہوں یا پھر میں دارالافتاء دیوبند کی ویب سائٹ پر مسئلہ کا حل تلاش کرتا ہوں یا پھر میرے وہاٹس اَیپ لِسٹ میں جو علمائے کرام جڑے ہیں ان سے وہاٹس اَیپ پر ہی دریافت کرلیتا ہوں، اور اس میں مجھے زیادہ معلومات بھی ملتی ہے اور مجھے اس میں اطمینانی بھی نصیب ہوتی ہے بجائے اس کے کہ میں کسی عالم دین کے پاس جاکر مسئلہ معلوم کروں، کیونکہ مجھے اس میں مشقت معلوم ہوتی ہے اورمیں جو طریقہ اختیار کرتا ہوں اس میں مجھے آسانی ملتی ہے مگر میرے ایک ساتھی ہیں جو میرے طریقے کو غلط سمجھتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ دین میں جتنی مشقت ہوگی اتنی نورانیت ہوگی اور اتنا ہی فائدہ پہونچے گا لیکن میں نے یہ حدیث سنی ہے کہ دین آسانی کے ساتھ ہے اور یہ طبعی اور فطری مذہب ہے اس لحاظ سے مجھے میرا طرز عمل صحیح لگتا ہے؟ میں آپ کی رائے اس مسئلہ پر جاننا چاہتا ہوں۔

    جواب نمبر: 149983

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 643-603/sd=7/1438

     مسئلہ معلوم کرنے میں اصل یہ ہے کہ کسی قابل اعتماد عالم یا مفتی سے معلوم کیا جائے، آدمی کو مسائل اور شریعت سے متعلق امور کی تحقیق کے لیے کسی معتمد عالم یا مفتی سے رابطہ رکھنا چاہیے اور اگر خود پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہو، تو معتبر کتاب کے ذریعے خود بھی مسئلہ کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح کسی معتمد دار الافتاء میں سوال بھیج کر بھی فتوی حاصل کیا جاسکتا ہے، انٹر نیٹ، واٹسپ وغیرہ کے ذریعے مسائل کی تحقیق میں بے احتیاطی پائی جاتی ہے، اس میں عامی شخص کے لیے صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے ؛ ہاں اگر واٹسپ پر کسی معتبر عالم دین یا مفتی سے رابطہ ہو، تو اُس سے مسئلہ معلوم کرنے میں مضائقہ نہیں، حاصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسئلہ کی تحقیق کے لیے عالم یا مفتی کے پاس جانا ضروری نہیں ہے، روز مرہ کے عمومی مسائل معتبر کتاب کے ذریعہ خود بھی معلوم کیے جاسکتے ہیں،لہذا آپ کے ساتھی کی بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، مسئلہ کی تحقیق کے لیے کسی عالم یا مفتی کے پاس خود جانا اس بنیاد پر کہ جتنی زیادہ مشقت ہوگی، اتنی ہی نورانیت ہوگی، اس اصول پر صورت مسئولہ کو منطبق کرنا صحیح نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ آسان طریقہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے تھے، لہٰذا اگر عالم کے پاس جائے بغیر کسی معتبر و مستند طریقے سے مسائل کی تحقیق ہوجائے، تو اُس پر اعتماد کر کے عمل کر لینا چاہیے، ہاں علمائے دین کی صحبت اور اُن سے استفادے کے لیے کبھی کبھی اُن کی خدمت میں حاضری مستقل اہمیت کی چیز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند