• عقائد و ایمانیات >> فرق ضالہ

    سوال نمبر: 22230

    عنوان: مفتی صاحب عرض خدمت یہ ہے کہ کیا مہدی جونپوری کے باپ کا نام تاریخی مستند حوالوں سے عبداللہ تھا اور اس کی والدہ کا نام آمنہ تھا مستند حوالوں سے وضاحت فرمائیں سنا ہے انھوں نے احادیث کی علامت اپنے اوپر چسپاں کرنے کے لیے والد کا نام عبداللہ کرلیا تھا، تحقیقی جواب عنایت فرمائیں

    سوال: مفتی صاحب عرض خدمت یہ ہے کہ کیا مہدی جونپوری کے باپ کا نام تاریخی مستند حوالوں سے عبداللہ تھا اور اس کی والدہ کا نام آمنہ تھا مستند حوالوں سے وضاحت فرمائیں سنا ہے انھوں نے احادیث کی علامت اپنے اوپر چسپاں کرنے کے لیے والد کا نام عبداللہ کرلیا تھا، تحقیقی جواب عنایت فرمائیں

    جواب نمبر: 22230

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د):715=553-5/1431

    مہدی جونپوری کے والد کا نام یوسف اور ماں کا نام آغا ملک تھا، بعد میں دونوں کا نام بدل کر مہدویوں نے عبداللہ اور آمنہ رکھ دیا تاکہ جوعلامتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں وارد ہوئی ہیں وہ اپنے اوپر چسپاں کرسکے، اس نے امراء وسلاطین کے دعوتی خطوط میں اسکا دعویٰ بھی کیا ہے: چناں چہ وہ کہتا ہے: ”اے لوگو! اس امر کو سمجھ لو کہ میں محمد بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نام ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ نے ولایت محمدیہ کا خاتم اور اپنے نبی کی بزرگ امت پر خلیفہ بنایا ہے“، اس کے ہمعصر مصنفین میں سے کوئی بھی اس کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ نہیں لکھتا: السید محمد الکاظمي الحسیني بن سید خان المعروف بڈھ اویسی اور والدہ آقا ملک إلخ (دائرہ معارف اسلامیہ اودھ: ۷/۵۲۱، دانشگاہ پنجاب لاہور بحوالہ احسن الفتاوی: ۱/۱۹۱)
    علامہ عبدالحی بن فخرالدین الحسینی اپنی مشہور کتاب ”نزہة الخواطر“ کے سلسلہ نمبر ۴۸۶ میں لکھتے ہیں: ”الشیخ الکبیر محمد بن یوسف الحسیني الجونپوري المتمہدي، اس کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں: قال أبورجاء الشاہ جہان پوری: في الہدیة المہدویة: إن الجونپوري لم یمنع أصحابہ عن ذلک (أي عن نسبتہ إلی المہدي الموعود) وبدّل اسم أبیہ بعبد اللہ، واسم أمہ بآمنة، وأشاعہا في الناس“ (نزہة الخواطر: ۴/۳۲۴، ط: دائرة المعارف حیدرآباد بہ حوالہ احسن الفتاوی: ۱/۱۹۲)
    ملا عبدالقادر بدایونی کی فارسی تاریخ ”منتخب التواریخ“ کے مترجم محمود احمد فاروقی نے حاشیہ میں لکھا ہے: سید محمد جونپور کے رہنے والے تھے، ان کے والد کا نام یوسف تھا۔ (ترجمہ منتخب التواریخ: ۲۱۰، بہ حوالہ احسن الفتاویٰ: ۱/۱۹۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند