• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 178745

    عنوان: اگر کوئی مسلمان کورونا وائرس میں انتقال کرجائے تو اس کے غسل اور نماز جنازہ کا کیا حکم ہوگا؟

    سوال: اگر کوئی مسلمان کورونا وائرس میں انتقال کرجائے تو اس کے غسل اور نماز جنازہ کا کیا حکم ہوگا؟ تمام ممکنہ صورتیں وحالات مد نظر رکھ کر تفصیلی رہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔

    جواب نمبر: 178745

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 749-114T/N=9/1441

    بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

    الجواب وباللّٰہ التوفیق:۔ اگر کسی مسلمان کا کورونا وائرس میں انتقال ہوجائے تو عام مرحومین کی طرح اُسے بھی غسل دینا شرعاً ضروری ہوگا بالخصوص جب کہ طبی اعتبار سے غسل دینے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو؛ کیوں کہ کی W.H.O(ڈبلیو، ایچ، او) یعنی: عالمی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس میں انتقال کرنے والے افراد کی لاشوں کے ساتھ تعامل سے کسی کے متاثر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے؛ البتہ میت کو رکھنے، اٹھانے اور غسل وغیرہ میں حفاظتی احتیاطی تدابیر بہ طور خاص ملحوظ رکھی جائیں، اُن میں غفلت وبے احتیاطی نہ کی جائے۔

    اور اگر کسی جگہ ہسپتال کا عملہ غسل دینے کی اجازت نہ دیتا ہو توعلاقہ کے با اثر ورسوخ حضرات یا ملی تنظیمیں، ذمہ داران اعلی سے رابطہ کرکے اس مسئلہ کو حل کریں اور W.H.O(ڈبلیو، ایچ، او)کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی بنیاد پر غسل کی اجازت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کریں؛ البتہ اگر وہ ہسپتال ہی میں غسل کا انتظام کریں یا اپنے عملہ کے ذریعہ غسل دلائیں تو اس میں کچھ حرج نہیں۔

    اور اگر خدانخواستہ میت کو غسل دینے کی کوئی صورت نہ بن سکے تو میت کو پیک کرنے سے پہلے تیمم کرادیا جائے، مجبوری میں یہ تیمم، غسل کے بدل ہوجائے گا۔ اور اگر ہسپتال کا عملہ تیمم کا طریقہ سیکھ کر خود تیمم کرادے تو یہ بھی کافی ہوگا۔

    اور اگر کسی جگہ تیمم کی بھی صورت نہ بن سکے اور ہسپتال کی طرف سے میت کو مکمل پیک اور سیل کردیا گیا ہو اور اُسے کھولنے کی قطعاً اجازت نہ ہو اور بہ صورت دیگر مختلف ناقابل برداشت مسائل وپریشانیوں کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں لواحقین کا میت سے دست بردار ہوجانا یا یوں ہی نماز جنازہ کے بغیر دفن کردینا درست نہ ہوگا؛ بلکہ ایسی مجبوری میں غسل اور تیمم کا حکم شرعاً ساقط ہوجائے گا اور اسی حالت میں مرحوم کی نماز جنازہ پڑھ کر تدفین کردی جائے گی۔

    اور اس صورت میں چوں کہ میت کی پیکنگ یا لفافے پر پانی بہانے، بھیگا ہاتھ یا بھیگا کپڑا پھیرنے یا اوپر ہی سے تیمم کرانے کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے؛ اس لیے پیکنگ پر پانی بہانے، مسح کرنے یا تیمم کرانے کی ضرورت نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔

    صورت مسئولہ میں غسل اور تیمم ساقط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح مطلق نماز کے لیے نمازی کی کلی یا جزوی طہارت ایسی شرط ہے، جو عذر ومجبوری میں ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح نماز جنازہ کے لیے میت کی طہارت بھی ایسی شرط ہے،جو عذر ومجبوری میں ساقط ہوجاتی ہے۔ فقہ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں (تفصیل فتوی: ۷۴۸/ن، ۱۱۳/ تتمہ/ن، ۱۴۴۱ھ میں ملاحظہ فرمائیں)۔

    اور پیکنگ یا لفافے پر پانی بہانا، مسح کرنا یا تیمم کرانا اس لیے درست نہیں کہ شریعت میں غسل یا تیمم کا حکم براہ راست بدن سے متعلق ہوتا ہے، کسی پیک کردہ چیز سے نہیں۔ اور پانی بہانے یا مسح کرنے کو مسح علی الجبیرہ پر قیاس کرنا غلط ہے ؛ کیوں کہ یہ بدل سے اصل کی طرف عود کرنا ہے، جو غلط وباطل ہے؛ کیوں کہ پانی بہانا یا مسح کرنا غسل ہی کے درجے میں ہوتا ہے اور تیمم متعذر ہوچکا ہے۔ اور شریعت میں وضو یا غسل کے تمام اعضا پر مسح کی کوئی نظیر نہیں ہے؛ بلکہ اگر فقہا کی صراحت کے مطابق مسح علی الجبیرہ، بعض اعضا کے غسل کے ساتھ جزوی طور پر پایا جاتا ہے۔ اور اگر اکثر اعضا زخمی ہوں کہ اُنھیں دھویا نہ جاسکے تو غسل کا حکم ساقط ہوکر تیمم کا حکم ہوتا ہے۔ اور بعض علما نے مسح علی الجبیرہ پر قیاس کرکے جو پیکنگ پر تیمم کا حکم دیا ہے، یہ باعث حیرت وتعجب ہے ؛ کیوں کہ اصول فقہ میں یہ امر طے شدہ ہے کہ مقیس کا حکم، مقیس علیہ سے مختلف نہیں ہوتا اور یہاں مقیس علیہ کا حکم مسح (جو بہ حکم غسل ہوتا)ہے اور مقیس کا تیمم، نیز پیکنگ پر تیمم کرانے میں اعضائے تیمم پر استیعاب بھی نہیں ہوسکے گا؛ جب کہ وضو کی طرح تیمم میں بھی استیعاب شرط ہوتا ہے کما في عامة کتب الفقہ والفتاوی۔

    (الثامن) منھا -من شروط التیمم- (زوال ما یمنع المسح) علی البشرة (کشمع وشحم)؛ لأنہ یصیر بہ المسح علیہ لا علی الجسد (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، کتاب الطھارة، باب التیمم، ص: ۱۲۱، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)۔

    (تیمم لو) کان (أکثرہ) أي: أکثر أعضاء الوضوء عدداً وفي الغسل مساحة (مجروحاً) أو بہ جدري اعتباراً للأکثر (وبعکسہ یغسل الصحیح) ویمسح الجریح (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب التیمم، ۱: ۴۲۹، ۴۳۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۲: ۱۶۱، ۱۶۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    وإذا أجنب الرجل وعلی جمیع جسدہ أو علی أکثرہ جراحة أو بہ جدري، فإنہ یتیمم ولا یمسح علی الجراحة ولا یغسل الموضع الصحیح، فإن کان أکثر بدنہ صحیحاً فإنہ یغسل الصحیح ومسح علی الباقي۔ وکذلک ھذا الحکم في أعضاء الوضوء۔ ولو ترک المسح علی الجبیرة إن کان یضرہ جاز وإلا فلا (مقدمة الغزوي ص:۳۳،ب، ۳۴، الف، مخطوط)۔

    قولہ: ”ویترک المسح کالغسل“: أي: یترک المسح علی الجبیرة کما یترک الغسل لما تحتھا (رد المحتار)۔ قولہ: ”عن مسح نفس الموضع“: أي: وعن غسلہ، وإنما ترکہ؛ لأن العجز عن المسح یستلزم العجز عن الغسل، ح (تحفة الأخیار علی الدر المختار للحلبي، ص: ۸۱، ألف، مخطوطة)(المصدر السابق)۔والعجز عن المسح یستلزم العجز عن الغسل، حلبي ( حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار، کتاب الطھارة، باب المسح علی الخفین، ۱: ۱۴۴، ط: مکتبة الاتحاد، دیوبند)۔فقط واللّٰہ تعالی أعلم۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند