• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 176984

    عنوان: ایک دو سانسیں لینے والے بچے کی نماز جنازہ کا حکم اور اگر علم نہ ہونے کی وجہ سے غسل اور نماز جنازہ کے بغیر دفن کردیا گیا تو اب کیا حکم ہوگا؟

    سوال: ایک دو سانس لینے والے بچہ کی نماز جنازہ پڑھی جائیگی یا نہیں؟اگر علم نہ ہونے کی وجہ سے بغیر غسل ونماز جنازہ کے دفنا دیا اب کیا حکم ہے؟براہ رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 176984

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:563-443/N=7/1441

    (۱، ۲): اگر کسی بچہ یا بچی کا پورا یا اکثر دھڑ نکلنے کے بعد اُس نے ایک،۲/ سانسیں لیں، پھر وہ مرگیا تو سانس لینا حیات کی علامت ہے ؛ لہٰذا اُسے سنت طریقہ پر غسل دیا جائے گا، کفنایا جائے گا، اُس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اُس کا نام بھی رکھا جائے گا۔ اور اگر صرف سر نکلا تھا اور اُس نے ایک، ۲/ سانسیں لیں اور انتقال کرگیا تو اُس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ؛ البتہ نام رکھا جائے گا اور غسل دے کر کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے گا۔ اورپہلی صورت میں اگر بچہ یا بچی کو نماز جناز کے بغیر دفن کردیا گیا تو جب تک قبر میں میت کے نہ پھٹنے کا یقین یا غالب گمان رہے، قبر ہی پر نماز جنازہ پڑھ لی جائے، اور مسئلہ سے ناواقفیت کی بنا پر جو کوتاہی ہوئی، اُس سے توبہ واستغفار کیا جائے۔

    (ومن ولد فمات یغسل ویصلی علیہ) ویرث ویورث ویسمی (إن استھل) بالبناء للفاعل: أي: وجد منہ ما یدل علی حیاتہ بعد خروج أکثرہ……(وإلا) یستھل (غسل وسمي) عند الثاني، وھو الأصح فیفتی بہ علی خلاف ظاھر الروایة إکراماً لبني آدم کما في ملتقی البحار۔ وفي النھر عن الظھیریة: وإذا استبان بعض خلقہ غسل وحشر ھو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم یصل علیہ) الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۲۹-۱۳۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۳۱۰- ۳۱۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)، قولہ: ”یغسل ویصلی علیہ“: أي: ویکفن، ولم یصرح بہ لعلمہ مما ذکرہ (رد المحتار)، قولہ: ”بعد خروج أکثرہ “: متعلق ب ”وجد“، فلو خرج رأسہ وھو یصیح ثم مات لم یرث ولم یصل علیہ ما لم یخرج أکثر بدنہ حیاً، بحر عن المبتغی، حد الأکثر من قبل الرجل سرتہ ومن قبل الرأس صدرہ، نھر عن منیة المفتي (المصدر السابق)، (ومن استھل بعد الولادة) أي: وجد منہ ما یدل علی حیاتہ بعد خروج أکثرہ (غسل وسمي وصلي علیہ)، ویرث ویورث، (وإلا) یستھل (غسل) وسمي (في المختار وأدرج في خرقة)، ودفن (ولا یصلی علیہ) الخ (الدر المنتقی مع المجمع، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، ۱: ۲۷۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، (وإن دفن) وأھیل علیہ التراب (بغیر صلاة) أو بھا بلا غسل ……… (صلی علی قبرہ) استحساناً (مالم یغلب علی الظن تفسخہ) من غیر تقدیر وھو الأصح، وظاھرہ أنہ لو شک في تفسخہ صلي علیہ، لکن في النھر عن محمد: لا کأنہ تقدیماً للمانع (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۲۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۳۰۰، ۳۰۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)، أقول: وفي الحلبة: نص الأصحاب علی أنہ لا یصلی علیہ مع الشک في ذلک، ذکرہ في المفید والمزید وجوامع الفقہ وعامة الکتب، وعللہ في المحیط بوقوع الشک في الجواز اھ وتمامہ فیھا (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند