• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 169478

    عنوان: مدارس میں جو قرآن وحدیث كی تعلیم ہوتی ہے كیا وہ بھی دعوت وتبلیغ ہے؟

    سوال: کیا مدارس جو آج قائم ہیں، وہاں سنت کے خلاف تعلیم ہورہی ہے؟ ایک کتاب ہم نے پڑھی اس میں لکھا ہوا ہے کہ مسجد نبوی کی جو تعلیمی حلقے لگ تھے تھے وہی سنت طریقہ ہے، اور آج مدارس استنبابی اصول سے بنے ہوئے ہیں، مسجد نبوی کی تعلیم حلقے کا طریقہ چھوٹنے کی وجہ سے علماء میں سے عمل نکل گیا، کیا یہ بات صحیح ہے؟ مدارس قائم کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اور دلیل کیا ہے؟ اور اس کتاب میں لکھا ہے کہ استنبابی اصول سے جو چیزقائم کی گئی اسی کو اصل سمجھ کر بیٹھ گئے، اور اصلی کام دعوت وتبلیغ کو بھول گئے، اس سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کے زمانے کے بعد امت دعوت وتبلیغ کو بھول گئے، اور دوسرے شعبے میں مصروف ہوگئے ، میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات سچ ہے؟ اسی کتابم یں لکھا ہے کہ فقراء (دین کے کام کرنے والے) نبی کے زمانے میں بغیر اجرت کے پڑھاتے تھے، فاقہ کرتے تھے، میرا سوال یہ ہے کہ بیت المال سے کس کس کو وظیفہ مقرر تھا نبی کے زمانے میں؟ اسی کتاب لکھا ہے کہ تمام کام مسجد نبوی سے ہوتے تھے ، تو آج تمام کام کو اگر مسجد میں منتقل کردیں گے تو کیا حالات پہ سوچ سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 169478

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1025-168T/B=12/1440

    دعوت و تبلیغ کے طریقے شریعت نے مقرر نہیں فرمائے ہیں۔ دینی مدارس میں جو قرآن و حدیث اور دیگر علوم کی تعلیم ہوتی ہے یہ بھی دعوت و تبلیغ ہے اور عین دین ہے، خانقاہوں میں بیٹھ کر بزرگان جو اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کی خدمت انجام دیتے ہیں یہ بھی دعوت و تبلیغ ہے تصنیف و تالیف اور دینی مضمون نگاری یہ بھی دعوت و تبلیغ ہے اور آجکل مولانا الیاس صاحب کی جماعت دین کا جو کام کر رہی ہے یہ بھی دعوت و تبلیغ ہے۔ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ کے ملفوظات میں ہے کہ میں نے یہ جماعت اس لئے قائم کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مدارس قائم ہوں۔ جو کچھ باتیں آپ نے نقل کی ہیں یہ صحیح نہیں ہیں خالص غلو کی باتیں ہیں۔ ابتداء اسلام میں تعلیم کا نظام مسجد نبوی میں ضرورت کی وجہ سے تھا جب مسلمانوں کی کثرت ہوگئی اور مساجد میں نظام تعلیم ممکن نہ رہا تو علماء نے مدارس قائم کئے، ایسا نہ کرتے تو مسجد کا احترام ختم ہوجاتا۔ خلفاء راشدین کے زمانے میں اور ان کے مابعد کے زمانے میں سلاطین و امراء ہمیشہ پڑھانے والوں کو وظیفہ دیتے رہتے ہیں بغیر اجرت اور بغیر وظیفہ کے بھی پڑھانے والے تھے اور آج بھی بغیر اجرت کے پڑھانے والے موجود ہیں۔ اجرت لے کر پڑھانا یہ کوئی ناجائز کام نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند