• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 166177

    عنوان: كیا انفرادی طور پر دعوت كا كام كرنا صحیح ہے؟

    سوال: مولانا صاحب میرا تعلق پاکستان سے ہے اور تبلیغی جماعت میں وقت لگانے کا الحمد اللہ کئی دفعہ شرف حاصل ہوا ہے جہاں اس میں اصلاح ہوئی وہیں چند غلط نظریات بھی سامنے آئے ہیں جو کہ جماعت کے زمہ دار علماء میں تو ہرگز نہیں ہے لیکن اس جماعت سے منسلک افراد میں شدت کیساتھ دیکھا ہوں مثلا ایک صاحب اپنے بیان میں کہہ رہے تھے کہ "دعوت و تبلیغ کا کام نوح علیہ سلام کی کشتی ہے جو بھی اس پہ سوار ہوگا کامیاب ہوگا" ایک صاحب بار بار اپنے بیان میں کہہ رہے تھے "بس یہی ایک کام ہے اس ہی میں نجات ہے " اسطرح کی کئی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور اسکے علاوہ جماعت سے جڑے اکثر لوگوں میں قرآن سے بیزاری پائی جاتی ہے یہ لوگ مسجد میں درس قرآن شروع نہیں کرنے دیتے ہیں اور کہیں انکا زور نہ چلے تو پھر درس قرآن میں بیٹھتے بھی نہیں ہیں اور اسے روکوانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے مسجد کے امام صاحب نے مجاہدین اور مظلوم مسلمانوں کیلئے دعا کردیا عید کی نماز میں تو کمیٹی اور تبلیغی احباب کو ناگوار گزرا ور امام صاحب سے شکایت بھی کی اس بات پہ۔ اسطرح کی چیزیں دیکھتے ہوئے جماعت میں جڑنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ اگر میں خود کو اس جماعت سے مکمل طور پر دور کرلوں اور انفرادی طور پر جتنا ہو سکے دعوت دے دیا کروں اور اپنی اصلاح کیلئے خانقہ سے تعلق قائم کرلوں تو کیا ایسا کرنے سے میں گناہ گار ہوجاونگا یا ایسا کرنا درست ہے برائے مہربانی اپر کے احوال کو دیکھتے ہوئے رحنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 166177

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 256-468/B=05/1440

    آپ انفرادی طور پر بھی وعوت وتبلیغ کا کام کرسکتے ہیں اور خانقاہ میں جاکر مشائخ اور بزرگان سے بھی اپنی اصلاح باطن کرسکتے ہیں۔ یہ سب دین کے کام ہیں۔ آپ کو ہر ایک سے فائدہ ہوگا۔ گناہ گار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند