• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 1264

    عنوان:

    ماں باپ کی رضا کے لیے طلاق دینا کیسا ہے؟

    سوال:

    ایک مسلمان لڑکے اور ایک ہندو لڑکی میں محبت تھی۔ دونوں نے اپنے ماں باپ کو بتائے بغیر شادی کرلی۔ لڑکے نے پہلے ہندو لڑکی کو مسلمان بنایا (لڑکی کی مرضی سے) اور پھر نکاح کیا۔ مہر اکیس ہزار روپئے مقرر کی گئی۔ جب لڑکے کے گھر والوں کو پتہ چلا تو اس کے والدین و گھر والے اس سے ناراض ہوگئے اور کہہ دیا کہ تم لڑکی کو طلاق دیدو ، ہم تمہیں معاف کردیں گے، ورنہ زندگی میں کبھی تم سے بات نہیں کریں گے۔ لڑکے نے ماں باپ کی بگڑتی صحت اور ان کی ناراضگی کی وجہ سے مجبور ہو کر اس لڑکی کو طلاق دیدیا۔ دونوں نکاح کرکے ایک دوسرے سے قریب بھی رہے لیکن ملاپ نہیں ہوا۔ وہ لڑکی مسلمان ہونے کے بعد ایک بار اس لڑکے کے علم میں مندر گئی۔ طلاق کے بعد اس لڑکی نے اسلام چھوڑدیا کیوں کہ اس لڑکے نے اس کو طلاق دیدیا ۔ وہ کہتی ہے کہ اگر وہ مجھے زندگی بھر ساتھ رکھے تو میں پوری طرح سے اسلام میں داخل ہوجاؤں گی اور سارے اسلامی احکام پر چلوں گی اور اپنے مذہب کی کسی چیز پر بھی عمل نہیں کروں گی۔ مجھے اس سلسلے میں چار سوالوں کے جواب دیں:

    (۱) کیا اس لڑکے نے اس ہندو لڑکی سے شادی کر کے غلط کیاجب کہ اس نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر اسلام لے آئی۔ (۲) لڑکے نے ماں باپ کی رضا کے لیے اس لڑکی کو طلاق دیدی، کیا اس کے لیے ایسا کرنا صحیح تھا؟ (۳) آخرت کے دن اس لڑکے سے کیا معاملہ کیا جائے گا؟کیا اس لڑکے کو لڑکی کے اسلام چھوڑنے کا ذمہ دار مانا جائے گا؟ (۴) اگر وہ لڑکا پھر اس لڑکی سے شادی کرلے اپنے ماں باپ کی رضا کے بغیر تو اس کا آخرت میں کیا حشر ہوگا؟کیوں کہ وہ لڑکا اس لڑکی کو اللہ کی ماننے والی اور اسلام چلنے والی بنانا چاہتا ہے اور وہ لڑکی بھی اس کے لیے دل و جان سے تیار ہے۔ (۵) اور اس لڑکی کا حشر کیا ہوگا؟ اس لڑکی نے بہت سی مرتبہ کلمہٴ شہادت کو دہرایا ہے۔

    جواب نمبر: 1264

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 377/ل = 377/ل)

     

    (۱) اگر اس لڑکی نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا تھا تو اس سے نکاح کرنا اس لڑکے کا صحیح تھا۔

    (۲) والدین اگر کسی وجہ سے لڑکے کو حکم دیں کہ تو اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو لڑکے کو والدین کی بات پر عمل کرنا چاہیے حدیث شریف میں ہے: ولا تعقن والدیک وإن أمراک أن تخرج من أھلک ومالک وفي المرقاة وإن أمراک أن تخرج من أھلک أي امرأتک أو جاریتک أو عبدک بالطلاق أو البیع أو العتق أو غیرھا (مرقاة: ج۱ ص۱۳۲، ط: امدادیہ، پاکستان)

    (۳) لڑکے سے اس لڑکی کے بارے میں مواخذہ نہ ہوگا وَ لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی الآیة۔

    (۴) اگر دونوں بالغ ہیں تو ان کی رضامندی سے نکاح درست ہوجاتا ہے، البتہ لڑکے پر ضروری ہے کہ یا تو وہ شادی سے پہلے اپنے والدین کو راضی کرلے یا شادی کے بعد کیونکہ والدین کی معصیت کے علاوہ حتی المقدور اطاعت لازم ہے، مرقاة میں ہے ولا تعقن والدیک أي لا تخالفنھا أو أحدھما فیما لم یکن معصیة إذ لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق (مرقاة: ج۱ ص۱۳۲)

    (۵) اگر اس لڑکی نے کلمہ پڑھنے اور مسلمان ہوجانے کے بعد کوئی اور افعال شرک میں سے نہیں کیا ہے تو اس کا حشر مسلمانوں کے ساتھ ہوگا لیکن جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد وہ ایک بار مندر گئی ہے۔ اس میں اس کی وضاحت کی جائے کہ اس نے وہاں جاکر کوئی فعل شرک بھی کیا تھا یا نہیں؟ نیز اگر اس نے مندر میں جاکر کسی فعل شرک کا ارتکاب کیا تھا تو اس صورت میں شادی کے لیے بھی تجدیدِ ایمان ضروری ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند