• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 507

    عنوان: دینی امور میں رکاوٹ ڈالنے والے باپ کی اطاعت ضروری نہیں؟

    سوال:

    میرا سوال انتہائی نازک ہے۔ میرے والد کی شادی میری والدہ سے اور بدلے میں میری پھوپھی کی شادی میرے ماموں سے ہوئی تھی۔ میری والدہ کا ستمبر 2005ء میں انتقال ہوگیا۔ میں اکتوبر 1987ء میں پیدا ہوا۔ میری پیدائش کے کچھ سال بعد میری پھوپھی کا میرے ماموں (جو اُن کے شوہر تھے) سے جھگڑا ہوا۔ اس کی بنیاد پر میرے ابو نے میری والدہ سے جھگڑا کر کے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس وقت میری عمر تقریباً تین یا چار سال رہی ہوگی۔ میری پرورش میری والدہ نے نانی کے یہاں کی۔ زندگی بھر میری والدہ مجھے پالتی رہیں۔ جب مجھے میری والدہ لے کر ابو کے گھر جاتیں تو ابو کہتے کہ تم کیوں آئی ہو؟ جب میں آٹھویں کلاس میں تھا تو میرے ابو مجھ سے سال میں دو تین بار ملنے آتے۔ مگر جب میں بڑا ہوا اور ان کا آفس میرے گھر سے قریب ہوا تو وہ مجھ سے ہر جمعہ ملنے آتے اور جیب خرچ بھی دینے لگے جس کا سلسلہ پہلے نہیں تھا۔ میری پرورش کے پیسے اور اسکول کی فیس امی کو کبھی نہیں دی۔ جب میں کالج میں پہنچا تو تو کالج کی فیس اور جیب خرچ دینے لگے، اس کے علاوہ کچھ نہیں دیتے تھے۔ میری والدہ کے انتقال کے بعد انھوں نے مجھ سے بولنا شروع کیا کہ میرے گھر آجاؤ اور دولت کی لالچ دینے لگے۔ میرے ابو کا رجحان دینا کی طرف بہت زیادہ ہے۔ مجھے کہتے ہیں کہ نماز گھر میں پڑھا کرو اور بس فرائض ادا کیا کرو، اس سے زیادہ نہیں بڑھو۔ میں نے کہا کہ تبلیغی جماعت میں تین دن کے لیے جانا ہے ، مجھے آپ سے اجازت چاہیے تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ کہتے ہیں کہ تمہارا برین واش کردیں گے۔ یہ تھی تفصیل میرے والد صاحب کی ۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرے ابو بولتے ہیں کہ میرے پاس آجاؤ لیکن ان کی پابندیوں کی وجہ سے اور ماموں و خالہ نے جو زندگی بھر پالا اور پیار و محبت دیا اس کی وجہ سے اور ابو کی طرف سے دینی پابندیوں کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہتا ان لوگوں کو چھوڑ کر جانے کا۔ میرا سوال یہ ہے کہ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟ ایسے باپ کے پاس جانا ٹھیک ہے؟ کیا ایسے باپ کی اطاعت ٹھیک ہے؟ اور اگر ٹھیک ہے اور اس کے باوجود نہیں جاؤں تو کیا یہ جائز ہے؟ معذرت چاہتا ہوں، سوال تھوڑا لمبا ہواگیا۔

    جواب نمبر: 507

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 752/هـ=532/هـ)

     

    آپ والد صاحب کا ادب و احترام ملحوظ رکھا کریں کبھی کبھی ان کی جسمانی خدمت کردیا کریں، ان سے ملاقات کرتے رہا کریں، دعا کی درخواست کردیا کریں، ان کے حق میں خود دعا کا اہتمام کرتے رہیں، عبادات و دینی معاملات میں اگر وہ بغیر کسی وجہ شرعی کے رکاوٹ ڈالتے ہیں تو آپ پر اس سلسلہ میں ان کی اطاعت واجب نہیں، ان جیسے امور میں ان سے مشورہ یا اجازت لینا بھی آپ کے ذمہ واجب نہیں، ان امور کی انجام دہی پر کچھ کہیں تو سن لیا کریں ان کے مقابلہ میں جواب دینے کی کوشش نہ کیا کریں، بس ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند