معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 154721
جواب نمبر: 154721
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1395-1360/sd=1/1439
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اگر مولانا صاحب نے آپ کے ساتھ ایک متعین پلاٹ کی خریداری کا معاملہ کیا تھا کہ ہم دونوں پلاٹ خرید کر اُس کو فروخت کریں گے اور جو نفع ہوگا، وہ آپس میں برابر برابر تقسیم ہوگا، تو یہ شرکت کا معاملہ ہوا اور شرکت میں نقصان ہونے کی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد کسی کی سرمایہ کاری ہے ، اتنے ہی فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا؛ لہذا مولانا صاحب نے مذکورہ پلاٹ کی خریداری میں جتنے فیصد اپنا سرمایہ لگایا تھا، نقصان میں اسی کے بقدر وہ حصہ دار ہوں گے ، نقصان کے باوجود اپنی پوری رقم کا مطالبہ کرنا شرعا ناجائز ہے اور اگر آپ اپنی خوشی اور رضامندی سے اُن کی پوری رقم واپس کردیں، تو یہ آپ کی طرف سے تبرع سمجھا جائے گا، اس میں آپ گنہگار نہیں ہوں گے ۔صورت مسئولہ میں اگر معاملہ کی کوئی اور صورت مرادہو، تو اُس کی وضاحت کر کے دوبارہ سوال کرلیا جائے ۔قال الکاسانی : والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال۔ ( بدائع الصنائع : ۶۲/۶، ط: دار الکتب العلمیة )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند