عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 170290
جواب نمبر: 170290
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:799-653/N=9/1440
جی ہاں! جب پلاٹ کی خریداری کے وقت حتمی طور پر اُسے فروخت کرنے ہی کی نیت تھی تو اگرچہ اُس کا پیسہ کسی بھی ضرورت میں صرف کرنے کا ارادہ ہو، وہ پلاٹ شریعت کی نظر میں مال زکوة ہے، حسب ضابطہ سالانہ اس (کی مالیت) پر زکوة واجب ہوگی۔
عن سمرة بن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: أما بعد فإن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یأمرنا أن نخرج الصدقة من الذی نعد للبیع (السنن الکبریٰ للبیہقي، ۴:۲۴۷، رقم الحدیث: ۷۵۹۷، سنن أبی داود، ص: ۲۹۱، رقم الحدیث: ۱۵۶۲، ط: دار الفکر بیروت)، عن نافع عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: لیس في العروض زکاة إلا ما کان للتجارة۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، ۴:۲۴۷، رقم الحدیث: ۷۶۰۵)، الزکاة واجبة في عروض التجارة، وفي المضمرات: یرید بالعروض ما خلا الذہب والفضة والسوائم (الفتاوی التاتارخانیة، ۲:۲۳۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویشترط في عروض التجارة أن تکون قیمتہا نصاباً کاملاً في ابتداء الحول وانتہائہ، فلا عبرة للنقصان فیما بین ذلک الخ (المصدر السابق، ص ۲۴۰)، في عروض التجارة بلغت قیمتہا نصاباً من أحدہما، تقوم بما ھو أنفع للفقراء وتضم قیمتہا إلیہما (مجمع الأنہر، کتاب الزکاة،۱:۳۰۴، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند