عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 162856
جواب نمبر: 162856
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1114-275T/SN=1/1440
(۱) اگر زمین عشری ہے تو ٹھیکے پر دی ہوئی زمین پر بھی عشر واجب ہے؛ لیکن مفتی بہ قول کے مطابق عشر کی ادائیگی آپ کے ذمہ نہیں؛ بلکہ جس نے ٹھیکے پر لی ہے، اس کے ذمے ہے۔ والعشر علی الموٴجر کخراج موظف، وقالا علی المستأجر کمستعیر مسلم، وفی الحاوی: وبقولہما نأخذ (درمختار مع الشامی: ۳/۲۷۶، ط: زکریا) نیز دیکھیں: فتاوی دارالعلوم (۶/۱۱۶، سوال: ۲۵۷)۔
(۲) جی ہاں! اس صورت میں بھی عشر لازم ہے، اگر پھل پختہ ہونے کے بعد بیچتے ہیں تو آپ پر ورنہ خریدار پر۔ ولو باع الزرع إن قبل إدراکہ فالعشر علی المشتری ولو بعدہ فعلی البائع (درمختار مع الشامی: ۳/۲۷۶، ط: زکریا) ۔
(۳) اگر کسی کے پاس حوائج اصلیہ سے زائد اور دیون سے فارغ ساڑھے باون تولہ (۶۱۲/گرام ۳۶۰/ ملی گرام) چاندی کی مالیت کے برابر سونا چاندی، پیسہ یا مالِ تجارت وغیرہ ہے تو سال میں ایک مرتبہ زکات ادا کرنا لازم ہوتا ہے، رہا عشر تو اس کا کوئی نصاب نہیں اور نہ ہی کوئی خاص مدت متعین ہے، دورانِ سال جتنی مرتبہ بھی فصل پیدا ہوگی اتنی مرتبہ عشر ادا کرنا ہوگا؛ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عشر یعنی دسواں حصہ اسی وقت لازم ہوتا ہے جب کہ کاشت قدرتی پانی مثلاً بارش کے پانی سے کی جائے یعنی سینچائی کا غالب انتظام بارش کے پانی سے ہو، ورنہ یعنی اگر کاشت بارش کے پانی سے نہ ہو، بلکہ موٹر یا ٹیوب ویل وغیرہ کے پانی سے ہو تو پھر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لازم ہوتا ہے۔ وتجب في مسقي سماء أي مطر وسیح کنہر بلا شرط نصاب راجع لکل وبلاشرط بقاء وحولان حول؛ لأنہ فیہ معنی الموٴنة (درمختار مع الشامی: ۳/۲۶۶، ط: زکریا) ۔
نوٹ: آپ کے علاقے کی زمینیں عشری ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں مقامی معتبر مفتیان سے رابطہ کریں، اگر عشری ہوں گی تبھی وجوب عشر کا حکم ہوگا ورنہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند