• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 162835

    عنوان: ادھار بیچے ہوئے مال کی زکوٰة كا حكم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک تاجر ہوں کپڑے کی تجارت کرتا ہوں۔ میں ہندوستان کے ہر شہر سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے آرڈر لے کر ٹرانسپورٹ کے ذریعے مال سپلائی دیتا ہوں۔ کوئی کوئی پارٹی مال بھیجنے سے پہلے ہی بینک کے ذریعے پیمنٹ بھیج دیتی ہے ۔ لیکن اکثر مال پانے کے بعد پیمنٹ کرتے ہیں۔کچھ لوگ ہفتہ کے بعد کچھ مہینوں کے بعد۔ اور کجھ ایسے ہوتے ہیں جو ہفتہ کا وعدہ کر کے سال اور سالوں لگا دیتے ہیں بس جلد دینے کا وعدہ کرتے رہتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کچھ رقم کاٹ کر کم ادائیگی کرتے ہیں۔ اور کچھ پارٹیاں پیسہ مار بھی دیتی ہیں۔۔ جن سے تجارت کی جاتی ہے وہ مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔۔ اب سوال یہ ہے کہ میں کتنی رقم کی زکوٰة ادا کروں۔ موجودہ نقد رقم اور موجودہ سامان تجارت کے ساتھ ساتھ کیا ادھار میں بیچے ہوئے مال کی بھی زکوٰة واجب ہوگی؟ یا اس کو منہا کیا جائیگا۔ اگر اس ادھار میں بیچے ہوئے مال کی بھی زکوٰة ادا کرنی ہو گی تو اس بیچے ہوئے مال کی خرید قیمت پر یا منافع کے ساتھ جو ہم نے بل بنایا ہے اس بل اماؤنٹ پر۔۔ مہر بانی کر کے جواب جلد مدحت فرمائیں۔ شرعی دلائل کا حوالہ بھی مرحمت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 162835

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1173-1051/H=10/1439

    جو پارٹیاں مال اور پیسے مارلیں اور ان کی طرف سے ملنے کی امید باقی نہ رہے تو اس کی زکاة ساقط ہوجاتی ہے اور جن پارٹیوں اور قرضداروں کی طرف سے ادھار وصول ہوتا رہتا ہے یا وصول ہونے کی امید ہے تو اس کی زکاة واجب ہے اور جس قیمت پر آپ نے بیچا ہے اسی قیمت کو ملحوظ رکھ کر زکاة کا اداء کرنا واجب ہوگا، البتہ فی الحال اداء نہ کریں اور جیسے جیسے وصول ہوتا رہے اس کی زکاة اداء کرتے رہیں تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں بلکہ بلاکراہت جائز ہے ادھار خواہ مسلمانوں کے ذمہ ہو یا غیرمسلموں کے دونوں کا حکم یکساں ہے اگر کئی سال میں کوئی رقم وصول ہوگی تو اس پر ہرسال کی زکاة واجب ہوگی ہکذا في الفتاوی رد المحتار ج۲ص۵۳ (في باب زکاة المال من کتاب الزکاة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند