• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 162339

    عنوان: زکاة سے قرض ادا كرنا درست ہے یا نہیں؟

    سوال: میرے ایک رشتہ دار جوکہ ہائی اسکول میں پچھلے ۱۶ سالوں سے بحثیت معلم ہیں،خاندان و سماج میں عزت والے ہیں. ان کی تنخواہ بھی ماشا اللہ اچھی خاصی ہے یعنی قریبا" ۶۰ ہزار کے آس پاس. ان کے والد بھی ہائی اسکول میں معلم تھے اور ان پر بے انتہا ذمہ داریاں تھیں اس لئے ساری زندگی وہ مقروض ہی رہے . آج بھی جبکہ والد کی عمر قریب قریب ۷۳ سال ہے تب بھی وہ ۳-۴ لاکھ کے مقروض ہیں. اور یہ استاد چونکہ والدین کے اکلوتے بڑے فرزند ییں. والد کے ساتھ ساتھ چھوٹی بہنیوں کی ساری ذمہ داری ان پر ہی تھیں. کہتے ہیں ۱۶ سال پہلے جب وہ اسکول میں رجوع ہوئے تھے اس وقت صرف پہلے مہینے کی تنخواہ ایسی تھی جس پر کوئی قرض نہیں تھا. اگلے مہینے سے آج تک وہ بھی مقروض ہی ہیں اور ان پر بھی تقریبا" ۱۷ لاکھ کے آس پاس قرض ہے جو اگلے ۱۰ سال تک تنخواہ سے کٹتا رہے گا. آج بھی قریبا" ۴۰ ہزار روپئے ان کے قرض میں انکم ٹیکس جو لازمی ہے سرکاری نوکر کو اور پی ایف میں کٹتے ہیں. اور صرف ۱۹-۲۰ ہزار کے آس پاس میں ان کے پاس بچتے ہیں.جس میں ان کے گھر کا خرچ بھی ہو نہیں پاتا اور وہ ہر مہینہ ۵-۶ ہزار کسی نہ کسی سے لے کر مقروض ہوجاتے ہیں. تقریبا" ہر جاننے والے سے وہ قرض لے چکے ہیں. اب تو جان پہچان والوں نے دبے لفظوں میں انکار بھی کرنا شروع کردیا ہے . پھر عید برات اور بیماریوں میں اور کہیں نہ کہیں سے قرض لینا ہی پڑتا ہے . ان کے حساب سے یہ کہ ضروریات بہت زیادہ ہیں والد کی طرف سے گھر کے سارے بڑے بڑے خرچوں کی ذمہ داری ان کے اوپر ہے . اور اس میں رقم جتنی والد صاحب کہیں گے اتنی دینی پڑتی ہے . وہاں انکار نہیں ہوسکتا. وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ والد صاحب ہر مہینہ پیسوں کی مانگ نہیں کرتے لیکن جب کرتے ہیں تو بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور پچھلے سال سے انہوں نے کوئی بڑی رقم نہیں مانگی. وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مقروض ہونے میں مجھ سے زیادہ والد صاحب ذمہ دار ہیں. اگر ان کے اخراجات محدود ہوتے اور دکھاوا نہ کرتے تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی. بڑی پریشانی کے عالم میں وہ میرے پاس آکر کہنے لگے کہ اب اس سال سے میں کسی اور کے نام پر زکاة لوں گا اور اس رقم کو لے کر اپنے قرض ادا کروں گا. اس طرح سے ۳-۴ سالوں میں میرا قرض ادا ہوجائے گا. بغیر سوچے سمجھے اسی وقت میں نے ڈانٹ کر منع کردیا اور اس طرح یہ جائز نہیں. کیونکہ تمہاری تنخواہ تو قریبا" ۶۰ ہزار ہے اور تم زکاة کے مستحق نہیں ہو. قرض اگلے ۱۰ سال میں ہی سہی ختم ہو ہی جائیگا. جبکہ میں بھی جانتا ہوں کہ ان کے قرضے تو ہر سال کیا ہر ماہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں. کیونکہ چند اشخاص قرض معاف کریں گے بینک والے نہیں. بعد میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ جب زکاة کی باریکیوں کا مجھے علم نہیں ہے تو میں نے ان کو کیوں منع کیا. بہتر تھا کسی عالم سے پوچھتا یا ان کو بھیج دیتا. مشورہ کے لئے . کئی دنوں سے یہ بات دل میں کھٹک رہی ہے ۔ اسی لئے محترم آپ سے یہ جاننا تھا کہ کیا ایسا شخص جو حالات کے حساب سے مقروض ہوا ہے وہ زکاة کی رقم سے اپنا قرض ادا کر سکتا ہے تاکہ آگے سے قرض کی لعنت سے بچ سکے ؟ کیا وہ شخص مخیر حضرات سے کسی اور کو دینے کا وعدہ کرکے اپنے قرض ادا کرنے کے لئے کر سکتا ہے ؟ اور خود کا قرض ادا کر سکتا ہے ؟ برائے کرم جلد از جلد رہنمائی کریں، تاکہ ان شخص کو حقیقت سے مطلع کرسکوں۔ ساتھ ہی میری بھی اصلاح ہو سکے شکریہ۔

    جواب نمبر: 162339

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1172-87T/M=10/1439

    صورت مسئولہ میں اس مقروض رشتے دار کو چاہیے تھا کہ قرض لینے سے پہلے اچھی طرح غور کرلیتے کہ اس کی ادائیگی ہوپائے گی یا نہیں اور اپنی ضروریات واخراجات اس قدر بڑھالینا کہ ماہانہ آمدنی بھی ناکافی ہوجائے، یہ ہرگز دانشمندی نہیں، آمدنی کے حساب سے آدمی کو خرچ کرنا چاہیے اور اتنا قرض نہیں لینا چاہیے جس کی ادائیگی دشوار ہوجائے، بہرحال صورت مسئولہ میں اس شخص کو چاہیے کہ اپنی تنخواہ سے بتدریج قرض ادا کرتا رہے اور اپنے اخراجات میں ہرممکن کمی لانے کی کوشش کرے اور جہاں تک زکاة لینے کا سوال ہے تو اگر تنخواہ ملنے پر ساری رقم قرض وٹیکس کی ادائیگی اور اپنی ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے اور اپنے پاس کچھ بھی رقم نہیں بچتی اور ہرمہینے مزید کچھ قرض لینے کی بھی نوبت آجاتی ہے اور ماہانہ تنخواہ کے علاوہ اس کے پاس تجارتی مال، سونا، چانی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے جس سے وہ صاحب نصاب ہوسکے تو اس کے لیے زکاة لینے کی گنجائش ہے اور اس زکاة کو قرض کی ادائیگی میں صرف کرسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند