• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 158619

    عنوان: رہائشی گھر کو اگر فروخت کرنے کی نیت کرلی جائے تو زکاة کا حکم؟

    سوال: الحمد للہ! اللہ نے مجھے دو گھر دیئے ہیں، لیکن مجھے ایک گھر بیچ کر دوسری جگہ دوسرے دو گھر لینے کا ارادہ ہے اسی پیسے سے یا تھوڑا پرسنل پیسے مزید ملا کر۔ میری بیوی نے بھی استخارہ کیا تو الحمد للہ! گھر بیچنے کا آیا استخارہ میں۔ استخارہ کیا مجھے ہی کرنا پڑے گا کہ میری بیوی نے جو کیا ہوا ہے وہ صحیح مانا جائے گا۔ لیکن گھر کا خریدار کوئی آنہیں رہا ہے، سب پوچھتے ہیں، لیکن مارکیٹ شو ہے اور مجھ سستے میں نہیں بیچنا ہے، مجھے میرا بھاوٴ لے کر بیچنا ہے، مارکیٹ ریٹ لے کر بیچنا ہے۔ مجھے ایک گھر بیچ کے دو چھوٹے گھر لینے ہیں اُسی پیسے سے۔ دوسری جگہ پر تو کیا پہلے گھر نہیں بکے اور سال گذار جاوے تو زکات اس گھر پر آئے گی؟ میں نے تھوڑا زیادہ بولا ہے بھاوٴ، مجھے ایک لمٹ تک بیچنا ہے اس سے کم میں نہیں، اگر وہ لمٹ مجھے مل جائے تو میں بیچوں گا نہیں تو میں وہ گھر نہیں بیچوں گا، ایسی صورت میں کیا اس گھر پر زکات لاگو ہوگی؟ سال گذرنے پر یا دو سال گذر جانے پر۔

    جواب نمبر: 158619

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 639-548/L=5/1439

    اگر آپ نے وہ گھر رہائش کے لیے بنوایا تھا یا رہائش کے مقصد سے ہی خریدا تھا تو محض فروخت کرنے کی نیت سے اس گھر کی مالیت پر زکوة واجب نہ ہوگی ،زکوة کے وجوب کے لیے ابتداءً بیچنے کی نیت سے خریدنا اور اسی نیت پر برقرار رہنا ضروری ہے ؛البتہ اگر وہ گھر بک جائے تو اس رقم پر حسبِ شرائط زکوة واجب ہوگی۔ ولو نوی التجارة بعد العقد أو اشتری شیئاً للقنیة ناویاً أنہ إن وجد ربحہ باعہ لا زکاة علیہ (در مختار مع شامی ۳: ۱۹۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند