• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 155349

    عنوان: غیر امدادی مدرسے کا زکوة لینا

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں ہمارے گاؤں میں ایک دینی مکتب جو حکومت ہند سے درجہ پنجم تک منظورشدہ ہے جس میں تین اساتذہ کی تنخواہ حکومت دیتی ہے اور باقی اساتذہ پرائیویٹ ہیں اور ان کی تنخواہ مدرسہ دیتا ہے اور مدرسے میں مسکین و غیر مسکین سب بچے دینی و عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں اور مدرسے میں بچوں کے کھانے اور قیام وغیرہ کا انتظام نہیں ہے بچے چھٹی کے بعد گھر چلے جاتے ہیں تو کیا ایسے مدرسے میں زکوة وغیر کے پیسے لینا اور اسی زکوة کے پیسوں سے اساتذہ کو تنخواہ دینا اور زکوة کے پیسے کو مدرسے کی تعمیر میں لگانا درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 155349

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:76-54/L=2/1439

    زکوة کے مصارف فقراء مساکین وغیر ہیں جن پر زکوة کی رقم تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے،اس لیے اگر اس مکتب ایسے بچے نہیں ہیں جن پر زکوة کی رقم خرچ کی جاسکے تو ایسے مدرسے والوں کے لیے زکوة کی رقم لینا اور اس کو اساتذہ کی تنخواہوں یا تعمیرِ مدرسہ میں لگانا جائز نہیں۔ قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہ توبہ آیت: ۶۰) وفی الدرالمختار: یصرف إلی کلہم أو إلی بعضہم تملیکا لا إلی بناء مسجد وکفن میت وقضاء دینہ (تنویر الأبصار مع رد المحتار: ۳/ ۲۹۱، کتاب الزکاة باب المصرف)

     وفي مجمع الأنھر: ولاتدفع الزکوة لبناء مسجد؛ لأن التملیک شرط فیھا ولم یوجد، وکذا بناء القناطیر وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج وکل ما لا تملیک فیہ اھ۔ (مجمع الأنھر: ۱/ ۳۲۷، ۳۲۸ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند