• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 153115

    عنوان: مختلف اوقات میں دی ہوئی رقم میں زکات کی نیت کرنا؟

    سوال: میری بیوہ بھابھی کا ۱۹/ سال کا بیٹا سخت بیمار ہوگیا، دوران علاج میں نے انہیں Rs.15000/- دیا۔ اور پھر ان کے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو تدفین کے لیے Rs.10000/- میں میں نے دیا اور پھر Rs. 3000/- چہارم اور دیگر کاموں کے لیے دیے۔ کیا یہ ساری رقم میں بطور زکات اپنے اوپر واجب زکات کی رقم میں سے نکال سکتا ہوں؟ از راہ کرم جلد از جلد جواب دیں۔ جزاک اللہ خیر

    جواب نمبر: 153115

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1196-1160/N=11/1438

     آپ نے اپنی بیوہ بھابھی کو مختلف اوقات میں جو ۲۸/ ہزار روپے دیے اور اب وہ سب خرچ ہوکر ختم ہوچکے ہیں ، ان میں آپ زکوة کی نیت نہیں کرسکتے اور وہ زکوة میں شمار نہیں ہوسکتے۔ہاں اگر آپ دیتے وقت زکوة کی نیت کرلیتے یا جب تک وہ پیسے آپ کی بھابھی کے پاس رہتے ، آپ نیت کرلیتے اور دونوں صورتوں میں آپ کی بھابھی کرنسی یا سونے چاندی کے زیورات وغیرہ کی وجہ سے صاحب نصاب نہ ہوتیں، یعنی: مستحق زکوة ہوتیں تو آپ کی زکوة ادا ہوجاتی۔

    وشرط صحة أدائھا نیة مقارنة لہ أي: للأداء ولو کانت المقارنة حکماً کما لو دفع بلا نیة ثم نوی والمال قائم في ید الفقیر الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”والمال قائم في ید الفقیر“: بخلاف ما إذا نوی بعد ھلاکہ، بحر۔ وظاھرہ أن المراد بقیامہ في ید الفقیر بقاوٴہ في ملکہ لا الید الحقیقیة وأن النیة تجزیہ مادام في ملک الفقیر ولو بعد أیام (رد المحتار)، قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورة التوبة: ۶۰)، یصرف المزکي إلی کلھم أو إلی بعضھم الخ (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الزکاة، باب المصرف،۳: ۲۹۱)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند