• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 146517

    عنوان: چھوڑی گئی زمین پر زكات؟

    سوال: سودی منافع سے بچنے کے لیے میں جائداد میں پیسے لگائے ہیں اور میری زمین ہیں۔ میری نیت یہ ہے کہ ایک زمین کو بیچ کر دوسری زمین میں مکان بناؤں گا۔ بقیہ دو زمینیں لمبے عرصہ کے لیے ہیں۔ایسی صورت میں پر زکاة کے حوالے سے کیا حکم ہے؟ مزید یہ کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا میں والد صاحب کی اجازت سے پہلے مکان بنا سکتاہوں ؟ کیوں کہ گھر بنانے کی جگ کو لے کر ان کے ساتھ میرا اختلاف ہے ، تاہم، ہمارے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔میں نے والد صاحب کی مرضی کے مطابق ایک گھر بنانے میں مالی مدد دی ہے جسے وہ وقت پر میرے بھائی کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    جواب نمبر: 146517

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 164-186/Sd=4/1438

     

    جس زمین کے خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ بعد میں اس کو فروخت کیا جائے گا، تو سال گذرنے پر اُس کی قیمت پر حسب شرائط زکات فرض ہوگی اور جس زمین کو خریدتے وقت یہ نیت ہو کہ بعد میں اُس پر مکان بنایا جائے گا یا فروخت کرنے کی کوئی حتمی نیت نہ ہو، تو ایسی زمین پر زکات فرض نہیں ہے، اصل اعتبار زمین خریدتے وقت کی نیت کا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں جس زمین کے خریدتے وقت ہی آپ کی نیت بعد میں فروخت کرنے کی تھی، تو اُس زمین پر سال گذرنے کے بعد زکات فرض ہوگی اور جس زمین کے بارے میں یہ نیت تھی کہ بعد میں آپ اُس پر مکان بنائیں گے، تو اس پر زکات فرض نہیں ہے اور جو زمینیں لمبے وقت کے لیے چھوڑی گئی ہیں، اگر ان کو خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ زیادہ منافع ملنے کی صورت میں فروخت کی جائیں گی، تو اُن پر بھی زکات فرض ہوگی : وتشترط نیة التجارة في العروض ولا بد أن تکون مقارنة للتجارة۔ (الأشباہ قدیم ۳۸)الزکاة واجبة في عروض التجارة کائنة ما کانت، ویشترط نیة التجارة۔ (ہدایة ۱/۱۷۵)عن نافع عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: لیس في العروض زکاة إلا ما کان للتجارة۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۴/۲۴۷رقم: ۷۶۰۵)

    (۲) والد صاحب مکان بنانے سے کیوں منع کر رہے ہیں ؟ اُن کا آپ کے ساتھ کیا اختلاف ہے، وضاحت فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند