• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 58392

    عنوان: عورت نوکری کب کرسکتی ہے؟کیا طریقہ ہوگا؟ کیا کیا شرط ہوگی؟ حوالے کے ساتھ جواب دیں۔

    سوال: عورت نوکری کب کرسکتی ہے؟کیا طریقہ ہوگا؟ کیا کیا شرط ہوگی؟ حوالے کے ساتھ جواب دیں۔

    جواب نمبر: 58392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 571-445/D=5/1436-U اس سلسلہ کا ایک تفصیلی فتوی ”چند اہم عصری مسائل“ نامی کتاب میں مکتبہ دارالعلوم دیوبند سے طبع ہوچکا ہے، اس کی کاپی منسلک کی جارہی ہے۔ ----------------------------------- خواتین کی ملازمت کا حکم محترم حضرات مفتیان کرام ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سوال:﴿۷۴﴾کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں : کیا مسلم خواتین سرکا ری وغیر سرکاری نوکریاں کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرنے اور نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر شوہر تنگدست ہو تو اس صورت میں بیوی کے لیے نوکری کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں مذکورہ جزئیات کے جوابات مدلل ومفصل تحریر فرمائیں عین کرم ہوگا۔ فقط والسلام محمد خورشید خادم جامعہ حضرت عثمان بن عفان  ، احمد پور، لاتور، مہاراشٹر (۱۱۸۰/د ۱۴۳۲ء) الجواب وباللہ التوفیق: شریعت نے اصالةً عورت پر کسب ِمعاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے؛ بلکہ مردوں کو کسب ِمعاش کا مکلف بنایا ہے؛ چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیاہے، یہی لوگ اس کے نان ونفقہ کے ذمہ دار ہیں۔ الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۔(سورہ نساء:۳۴) ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالی نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ اس لیے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یامخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیارِ زندگی بلندکرنے اورزندگی میں ترفہ پیداکرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لیے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں؛ لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو ، یا تساہلی کرتا ہو، یا عورت بیوہ ہو اور گھرمیں رہ کر اس کے لیے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی؛ چناں چہ حضرات فقہائے کرام نے معتدة الوفات کو کسبِ معاش کے لیے دن دن میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے ؛ مگر ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت باہر نکل کر ملازمت کے جائز ہونے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ملازمت کا کام فی نفسہ جائز کام ہو ایسا کام نہ، جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو؛کیوں کہ ممنوع وناجائز کام کی ملازمت بہر صورت ناجائز ہے۔ عورت کے لیے ملازمت ناگزیر ہونے کی صورت میں اور اس شرط کے پائے جانے کے ساتھ کہ وہ ملازمت جائز کام کی ہے، دوسری ضروری شرط احکامِ ستر وحجاب کی پوری پابندی کرنا ہے، اس کی تفصیل شرعی تعلیمات کی روشنی میں درج ذیل ہے۔ (الف): شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو، باہر نکلنے کے وقت شدید ضرورت کی حالت میں اگرچہ چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی اجازت ہے؛ مگر فتنے کا خوف ہو تو ان کے کھولنے سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے ،موجودہ دور جو فتنہ کا خوف ناک دور ہے، اس میں عام حالات میں حکم چہرہ چھپانے ہی کا ہے۔ (ب):لباس دبیز، سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، بھڑک دار، جاذب، پر کشش اور نیم عریاں قسم کا نہ ہو، اور ایسا لباس بھی نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو ؛ کیوں کہ حدیث میں عورت کے لیے ایسا لباس پہننے کی ممانعت اور وعیدوارد ہوئی ہے : رب نساء کاسیات عاریات ممیلات ومائلات، لا یدخلن الجنّة ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرة کذا وکذا(مسلم شریف:۱/۳۹۷)۔ ترجمہ:کچھ عورتیں ہیں جو کپڑا پہننے والی ہیں(مگر) وہ برہنہ ہیں، دوسروں کو مائل کرنے والی ہیں اور خود بھی مائل ہونے والی ہیں (ایسی عورتیں) ہر گز جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھ پائیں گی حالانکہ اس کی بواتنی اتنی دور سے آئے گی ۔ (ج)بناوٴ سنگار اور زیب وزینت کے ساتھ نیز خوشبو لگاکرنہ نکلے، قرآن کریم میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے ارشاد باری ہے: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأوْلَی (احزاب:۳۳)، احادیث میں بھی خوشبو لگا کرنکلنے و الی عورت کو زانیہ قرار دیا گیا ہے: کل عین زانیة والمرأة إذا استعطرت فمر ت بالمجلس فہي کذا وکذا یعني زانیة(ترمذی:رقم:۲۷۸۶)، ترجمہ:ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ زنا کرنے والی ہوتی ہے۔ (د)مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو، اگر کبھی کسی مرد سے اتفاقیہ گفتگو کی نوبت آئے تو عورت لوچ دار طرزِ گفتگو کے بجائے سخت لہجہ اختیار کرے تاکہ دل میں بے جا قسم کے وساوس وخیالات پیدا نہ ہوں ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ۔(الآیة احزاب : ۳۲)، ترجمہ:تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے ۔ (ھ) ایسا زیور پہن کر نہ نکلے جس سے آواز آتی ہو ۔وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۔(النور:۳۱)،ترجمہ:او ر اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجاوے۔ (و)ملازمت کرنے کی وجہ سے خانگی امور میں لاپروائی نہ ہو جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں؛ کیوں کہ عورت کی اولین اور اہم ذمہ داری ،بچوں کی تعلیم و تربیت اور امور خانہ داری ہے، ملازمت ثانوی درجہ کی چیز ہے، شریعت نے عورت کو اس کا مکلف بھی نہیں بنایا۔ (ز)راستہ پر امن ہو؛ یعنی آمدورفت کے دوران کسی شر اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ۔ مذکورہ شرطیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، فقہائے کرام نے ان کی صراحت کی ہے، ان شرائط کا لحاظ رکھتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے اگر جائز کام کی ملازمت عورت اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ؛ مگر غور کامقام ہے کہ اکثر جگہوں میں دورانِ ملازمت ان میں سے بیشتر شرائط مفقود ہوتی ہیں، اور یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ جہاں عورتوں کی ملازمت سے بظاہر کچھ فوائد محسوس کئے جاتے ہیں، وہیں معاشرے پر اس کے بہت زیادہ خراب اثرات بھی پڑرہے ہیں؛ مثلاً: خاندانی رکھ رکھاؤ ختم ہوجاتا ہے، زوجین کے مزاج وانداز میں ایک دوسرے سے دوری پیدا ہوجاتی ہے، بچوں کی تربیت نرسری کے حوالے ہوجاتی ہے ،عورت کی ملازمت ہی کے نتیجے میں طلاق وتفریق کے مسائل بھی بہ کثرت رونما ہورہے ہیں ۔ اگر کسی عورت کو واقعی معاشی تنگی کا سامنا ہونے کی بناپر ملازمت ناگزیر ہوجائے تو بہ وقت ضرورت ملازمت اختیار کرنے کی صورت میں اسے اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان اور اسلام کے احکام پر پختہ یقین رکھنے والی مسلم خاتون کی طرح اسلام کے حکم حجاب کو بھی تسلیم کرتے ہوئے، حجاب کی شرعی ہدایات پر کاربند اور عمل پیراہونے میں فخر محسوس کرنا چاہیے ؛کیوں کہ یہ اسلام کا خصوصی حکم اور اس کا شعار ہے؛ لہٰذا عورت خود اپنے حالات میں غورکرلے کہ اس کو ملازمت کی ضرورت کس درجہ کی ہے اور ملازمت اختیار کرنے میں کیا کیا امور ناجائز وگناہ کے اسے اختیار کرنے پڑیں گے؛ جن سے ایک مسلم خاتون کی حیثیت سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرنا، اس کے ذمہ لازم وضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ مجبور کن حالات میں بھی خلافِ شرع امور سے اجتناب کی راہ اختیار کرنا ، عورت کی خود اپنی ذمہ داری ہے۔فقط واللہ تعالی اعلم


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند