• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 172572

    عنوان: میاں بیوی میں رائے كا اختلاف ہوجائے تو كس كی رائے مانی جائے گی؟

    سوال: ایک میاں بیوی کا ایک بیٹا ہے۔ جس کی تعلیم کے بارے میں دونوں میں اختلاف ہے۔ آپ سے مشورہ چاہیے کون سی صورت زیادہ بہتر رہے گی۔ دونوں نے اپنی رضامندی سے اسے ایک مدرسے میں چھ سال کی عمر میں حفظ کرنے پر لگا دیا۔ پہلے مدرسے کا وقت عصر تک تھا لیکن دو سال بعد وقت عشاء تک بڑھادیا گیا اور بچہ اب رات 10 بجے تک گھر آتا ہے۔ اسکے علاوہ قاری صاحب نے گیس کا پائپ رکھا ہوا ہے جس سے وہ ذرا سی غلطی پر بچوں کو مارتے ہیں۔ والدہ کے تجزیے کے مطابق بچہ پورے دن گھر اور گھر والوں سے دور مدرسے میں رہنے کے باعث گھریلو زندگی اور رشتے ناتوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اسکا مزاج زیادہ غصہ والا ہوگیا۔ والدہ اور بہن سے بھی بدتمیزی کرنے لگا ہے۔ والدہ کا کہنا ہے کہ حفظ مکمل کرواکر کسی لڑکوں کے اسکول میں میٹرک تک تعلیم مکمل کروائی جائے۔ تاکہ گھر اور گھر کی زندگی اور آپسی پیار محبت سے بھی واقف ہو۔ا ور پھر کسی ٹیکنیکل ادارے میں کوئی ہنر سکھایا جائے۔ اسکے بعد وہ دینی تعلیم کے لیے کسی مدرسے میں عالم کے کسی کورس میں داخلہ لے لے تا کہ اپنی دینی تعلیم سے بھی بہرہ مند ہوسکے اور دنیاوی زندگی میں بھی پیچھے نہ رہے۔ لیکن شوہر بچے کو اپنی نجات کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے اور اسے یہ سمجھاتا ہے کہ عالم بنو اور دنیا کی فکر چھوڑو دیکھو ہمارے مرشد کے پاس بھی لوگ خود پیسے یعنی چندہ وغیرہ دے کر جاتے ہیں انھیں کسی کمانے کی کوئی فکر نہیں کرنا پڑتی۔ اور شوہر یہ چاہتا ہے کہ حفظ مکمل کروانے کے بعد اسے ایک ایسے مدرسے میں داخل کروادے جو انکی رہائش سے بہت زیادہ دور ہے اور ہفتے میں صرف ایک دن وہ گھر آئے گا۔ لیکن ماں ایسا نہیں چاہتی۔ اب یہاں آپ فیصلہ فرمادیں کہ کیا ٹھیک ہے۔ میاں بیوی دونوں کا کوئی دینی بیک گراوٰنڈ نہیں ہے۔ شوہر نے بس شادی کے بعد 4 مہینہ تبلیغ میں لگایا تھا۔ اب وہ بھی سوائے لبادے کے شریعت سے دور ہے۔

    جواب نمبر: 172572

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1457-188T/L=1/1441

    میاں بیوی کے درمیان کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے اور شوہر کسی ناجائز چیز کا حکم یا مشورہ نہ دے تو اسی کی رائے کو فوقیت حاصل ہوگی، مذکورہ بالا صورت میں چونکہ شوہر کا ارادہ شروع سے اپنے لڑکے کو دیندار بنانے کا ہے؛ اس لیے بہتر یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اولاً اس کو مدارس کی تعلیم دلوائی جائے اور جب وہ مدرسہ سے فارغ ہوجائے تو پھر اس کو کسی دینی ماحول کے اسکول میں تعلیم دلانے یا کوئی ہنر سکھانے میں بھی حرج نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند