معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 164623
جواب نمبر: 164623
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1329-139T/N=12/1439
(۱) ایسی عورت کو چاہیے کہ میقات سے حج یا عمرے کے احرام کے ساتھ گذرے، بلا احرام نہ گذرے؛ ورنہ گنہگار ہوگی اور اس پر ایک دم بھی واجب ہوگا اور ایک حج یا عمرہ بھی کرنا پڑے گا۔ اور اگر ایسی عورت میقات سے بلا احرام گذرکر مکہ مکرمہ پہنچ گئی تو اب اگر وہ توبہ کرلیتی ہے اور کسی میقات جیسے: ذولحلیفہ، قرن المنازل وغیرہ پر جاکر وہاں سے حج یا عمرے کا احرام باندھ کر آتی ہے تو اس کا گناہ بھی معاف ہوجائے گا اور دم بھی ساقط ہوجائے گا؛ لیکن ہر میقات مکہ مکرمہ سے کافی دوری پر واقع ہے، جس کی وجہ سے وہاں جانا، آنا آسان نہیں؛ اس لیے ایسی عورت پہلی صورت ہی پر عمل کرے اور پاک ہونے تک احرام میں رہے اور پاک ہونے کے بعد حج یا عمرہ کرے۔
وحرم تأخیر الإحرام عنھا کلھا لمن أي: لآفاقي قصد دخول مکة یعنی: الحرم ولو لحاجة غیر الحج (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۴۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من أتی میقاتاً بنیة الحج أو العمرة أو دخول مکة أو دخول الحرم لا یجوز لہ أن یجاوزہ إلا بإحرام (البحر العمیق، ص ۶۱۷)، فإن لم یحرم وعاد بعد تحول السنة أو قبلہ فأحرم بما لزمہ بالمجاوزة من المیقات سقط الإثم والدم بالاتفاق (غنیة الناسک، ص ۷۶، ط: مکتبة الشیخ التذکاریة، سھارن فور)، آفاقي مسلم بالغ یرید الحج ولو نفلاًأو العمرة …… وجاوز وقتہ …ثم أحرم لزمہ دم کما إذا لم یحرم فإن عاد إلی میقات ما ثم أحرم ……سقط دمہ الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب الجنایات، ۳: ۶۲۰- ۶۲۲)، فالمراد بقولہ: ”إذا أراد الحج أو العمرة“ إذا أراد مکة اھ ملخصاً عن الشرنبلالیة، ولیس المراد بمکة خصوصھا؛ بل قصد الحرم مطلقاً موجب للإحرام کما مر قبیل فصل الإحرام وصرح بہ فی الفتح وغیرہ (رد المحتار، ۴: ۶۲۱)، وإذا جازو المحرم أحد المواقیت علی الوجہ الذي ذکرنا ودخل مکة بغیر إحرام فعلیہ حجة أو عمرة قضاء ما علیہ ودم لترک الوقت (البحر العمیق، ص ۶۶۲)۔
(۲): جی ہاں! ایسی صورت میں ماہواری کے ایام میں احرام ہی میں رہے گی اور اس پر احرام کی پابندیاں ہوں گی۔ اور اگر اس نے کوئی جنایت کی تو حسب ضابطہ اس پر دم وغیرہ بھی واجب ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند