• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 164080

    عنوان: ماں اور بچہ كی صحت كی خرابی كی وجہ سے اسقاط حمل كا حكم

    سوال: امید ہے کہ آپ خیریت و عافیت سے ہوں گے ۔ کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسلہ ذیل میں۔ اس خاتون کے متعلق جس کی شادی کم سنی (16-17) سال کی عمر ہو گئی ہو، اس کے ایک سال بعد ایک بچہ کی ولادت ہوئی، ڈیڑھ یا دو سال بعد دوسرے بچے کی ولادت ہوئی۔ اب جب دوسرا بچہ نو مہینے کا ہوا تو اس کی والدہ کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ ڈاکٹر سے دکھانے کے بعد رپورٹ میں کہا گیا کہ خاتون دو یا ڈھائی مہینے سے حمل کی حالت میں ہے ، جس کی وجہ سے طبیعت ناساز رہتی ہے ۔ ماں کی طبیعت ناساز رہنے کی وجہ سے نو یا دس مہینے کا بچہ بھی بیمار ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ جس کی وجہ کر کمزور بھی ہو چکا ہے اور اب ماں حاملہ ہو گئی ہے تو دودھ بچے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ جس کی وجہ سے بچے کی پرورش و پرداخت میں پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہے ۔ اور ماں بھی کمزور ہو تی چلی جا رہی ہے ، چونکہ بغیر زیادہ وقفہ کے تیسری بار حاملہ ہو گئی ہے ۔ اور اگر ماں کسی طرح تیسرے حمل کو برداشت کرلے لیکن نو مہینے کے بچے کی دیکھ بھال اور اس کی صحت ٹھیک نہیں رہنے کا امکان ہو۔ مذکورہ بالا صورت کے پیشِ نظر قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب تحریر فرمانے کی زحمت گوارہ فرمائیں جس سے ماں کی صحت بحال ہو جائے اور دوسرے بچے کی بھی صحیح سے پرورش و پرداخت ہو سکے ۔

    جواب نمبر: 164080

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1296-1183/M=12/1439

    اگر صورت حال یہ ہے کہ ماں کی صحت بہت کمزور ہوگئی ہے اور تیسرا بچہ پیدا ہونے کی صورت میں ماں یا اس کے بچہ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے یا حمل ٹھہرجانے کی وجہ سے دوسرے شیرخوار بچے کی کی صحت متأثر ہورہی ہے بایں وجہ کہ اس کی گذربسر ماں کے دودھ ہی پر ہے تو ایسی صورت حال میں چار ماہ سے پہلے پہلے حمل کو ساقط کرانے کی گنجائش ہے اور اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو اسقاط سے احتراز لازم ہے اور معمولی تکلیف وپریشانی کا اعتبار نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند