• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 156373

    عنوان: عورت كے لیے پردہ اور اس كے حدود مقرر ہیں كیا مرد كے لیے بھی كچھ ہدایات ہیں؟

    سوال: ایک عالم دین سید خاندان سے تعلق ہے اور جمعہ و امامت کراتے ہیں، ان کے والدین دیوبند سے فارغ ہوئے ۔تصوف میں بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں اور بزرگان دین کے ساتھ بیٹھک رکھتے ہیں تبلیغ۔تعویزات ۔دم ۔اور حکمت کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان سے میں نے پوچھاکیا مرد کے لیے بھی ایسا ہی پردہ ضروری ہے جیسا عورت کے لیے تو انھوں نے کہاں کہ مرد کے لیے نظریں جھکاناہے (جیسا کہ مذکورہ آیت میں ہے )جبکہ عورت کے بارے میں انہوں نے کہا۔ آجکل کے دور میں پردہ ہی کون کرتا ہے ۔جہاں فتنے فساد کا اندیشہ ہوں(رشتہ داریاں ٹوٹتی ہوں یا لڑائی جھگڑا پیدا ہوتا ہو۔وغیرہ) وہاں پردہ درست نہیں ۔مزید انہوں نے کہا کہ میرا اپنا گھر میں شرعی پردہ نہیں ہے ۔(غورطلب بات مجھے نصیحت و عمل کے لیے کہی)دل صاف ہونا چاہیے ۔کسی بزرگ کا انہوں نے حوالہ دیا کہ انھوں نے کہا"جب اپنے سے چھوٹی کو دیکھو تو اسے اپنی بیٹی کی نگاہ سے دیکھو۔اپنے سے برابر والی کو بہن کی نگاہ سے دیکھو۔اور اپنے سے بڑی کو ماں کی نگاہ سے دیکھو" سوال نمبر۱ جیسا قرآن و حدیث میں عورت کے لیے حدودو قیود مقرر ہیں کیا مرد کے لیے بھی نگاہ نیچی کرنے کے علاوہ بھی حدودو قیود ہیں تو تفصیل سے رہنمائی فرمائیں ۔ سوال نمبر۲ مذکورہ مسئلہ کی بنیاد پر( مذکورہ فتنہ کی وجہ سے شرعی پردہ جائز نہیں ہے )مذکورہ عالم کی بات صحیح ہے کیا؟شریعت کیا کہتی ہے ؟کیا ایسی کوئی چھوٹ یا رعایت شریعت کے دائرہ میں موجود ہے ؟ سوال نمبر۳ بزرگ کی بات پر عمل کرنے سے کیا شریعت کی حدودوقیود پوری ہو جاتی ہیں۔ سوال نمبر۴ مرد کو شریعت کیا اجازت دیتی ہے کہ عورت کو زبردستی شریعت کے پردے کا پابند کرائے جبکہ عورت کی دل سے رضامندی نہ ہو۔ سوال نمبر۴ مذکورہ عالم کے بارے میں شریعت مطاہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ تمام سوالات و مسائل کی رہنمائی ضرور فرمائیں قرآن و مستند احادیث و فقہ کی روشنی میں فتوی سے رہنمائی فرما ئیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے ۔

    جواب نمبر: 156373

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:249-34T/L=4/1439

    (۱،۲) مرد کے لیے پردہ یہ ہے کہ وہ غیر محرم کو دیکھنے سے رک جائے ،اگر غیر محرم پر اچانک نظر پڑجائے اور وہ اس وقت نگاہ نیچی کرلے اور اس کی طرف دھیان نہ لے جائے تو یہ پردہ کے لیے کافی ہے ،عورت کے لیے پردہ یہ ہے کہ غیر محرم مردوں کے سامنے آنے سے خود کو بچائے اگر کبھی باہر جانے یا ایسی جگہ جانے کی نوبت آجائے جہاں غیر محرم مردہوں تو وہاں پردہ کے ساتھ اس طرح جائے کہ چہرہ وغیرہ نظر نہ آئے ؛البتہ اگر کہیں عورت ایسے گھر میں ہو جہاں کا نظام مخلوط ہو اور ہروقت پردہ میں رہ پانا مشکل ہو وہاں عورت کو چاہیے کہ گھونگھٹ وغیرہ کے ذریعے پردہ کرلے اگر اس کے باوجوں کبھی خطاً بے حجابی ہوجائے تو صفائی قلب کے ساتھ امید ہے کہ وبال نہ ہو،مذکورہ بالا عالم صاحب کی بات علی الاطلاق درست نہیں۔

    (۳) کسی بھی بزرگ یا عالم کی بات اسی وقت تک اسی حدتک لائقِ عمل ہوتی ہے جب تک وہ شریعت کے حدود اور دائرے میں ہو اگر شریعت سے الگ کوئی بات کوئی عالم یا بزرگ کہے تو وہ حجت اور لائقِ عمل نہ ہوگی۔

    (۴) حتی الوسع شوہر پر ضروری ہے کہ وہ بیوی کو بری اور غلط باتوں سے منع کرے اور بیوی کا یہ فریضہ ہے کہ اس معاملہ میں شوہر کی اطاعت کرے ؛البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ اس معاملے میں جبر سے کام نہ لے بلکہ حکمت ونرمی سے بیوی کو شریعت پر لانے کی کوشش کرے ۔

    (۵) اس کا جواب نمبر۱یک اور تین کے ضمن آچکا ہے ،عالم صاحب کو بیانات اور مسائل بتلانے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند