• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 150053

    عنوان: عورت كا پردے کے ساتھ ماہر حکیم كی نگرانی میں پریکٹس كرنا؟

    سوال: میں علم طب حاصل کرنا چاہتی،لیکن اس میں مہارت کیلئے 1 ماہر حکیم کی نگرانی میں پریکٹس کرنی ہو گی،کیا میرے لئے مکمل پردے کے ساتھ ماہر حکیم کی نگرانی میں خواتین مریضوں کی تشخیص کرنا اور تشخیص اور علاج کے بارے میں حکیم صاحب سے بات کرنا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 150053

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 644-776/N=7/1438

    دور حاضر میں ایلو پیتھک علاج عروج پر ہے اور اپنی ترقی و مقبولیت میں سب پر فائق ہے اور لوگ عام طور پر اسی علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں، دوسرے علاج کی طرف صرف خصوصی حالات میں رجوع کرتے ہیں اور طب یونانی کی طرف تو صرف ان امراض میں لوگ رجوع کرتے ہیں جن میں دوسرا طریقہ علاج بالکل کام یاب نہیں ہوتا اور لوگ پریشان وعاجز ہوجاتے ہیں۔اور طب یونانی میں ایسے علاج کی عام طور پر ضرورت بھی نہیں پڑتی ، جس میں ستر کھولنا پڑے۔ اور عورتیں تو اس طرح کے علاج کے لیے حکما کے پاس جاتی ہی نہیں اور خود حکما بھی اس طرح کا علاج نہیں کرتے؛ بلکہ صرف مریض کی نبض دیکھ کر یا مریض کا حال سن کر نسخہ تجویز کردیتے ہیں؛ اس لیے موجودہ صورت حال میں مرد حکما سے مرد اور عورتیں دونوں علاج کراسکتی ہیں، اس لائن میں عورتوں کے اعضائے مستورہ دیکھ کر علاج کرنے کے لیے حکما عورتوں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اور کسی خاتون کا کسی غیر محرم حکیم کے پاس پریکٹس اور مہارت کے لیے بیٹھنا اور اس کی نگرانی میں خواتین مریضوں کی تشخیص کرنا اور تشخیص اور علاج کے بارے میں حکیم سے بات کرنا وغیرہ فتنہ سے خالی معلوم نہیں ہوتا؛

     اس لیے اگر آپ علم طب حاصل کرنا چاہتی ہیں تو حاصل کرلیں، اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں؛ البتہ کسی نامحرم حکیم کے پاس بیٹھ کر پریکٹس نہ کریں ؛ بلکہ خود خواتین مریضوں کا علاج شروع کردیں اور احتیاط کے ساتھ کریں، انشاء اللہ کچھ عرصہ میں آپ خودماہر تجربہ کار ہوجائیں گی۔ اور اگر آپ کو کوئی خاتون حکیم مل جائے تو اس کے پاس رہ کر پریکٹس کرنے میں شرعاً کچھ حرج نہیں۔

    مستفاد:وکذا ینظر مرید…مداواتھا ینظر الطبیب إلی موضع مرضھا بقدر الضرورة؛ إذ الضرورات تتقدر بقدرھا ……وینبغي أن یعلم امرأة تداویھا؛ لأن نظر الجنس إلی الجنس أخف (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، ۹: ۵۳۲، ۵۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وینبغي الخ“:کذا أطلقہ فی الھدایة والخانیة، وقال فی الجوھرة: إذا کان المرض في سائر بدنھا غیر الفرج یجوز النظر إلیہ عند الدواء؛ لأنہ موضع ضرورة، وإن کان في موضع الفرج فینبغي أن یعلم امرأة تداویھا، فإن لم توجد وخافوا علیھا أن تھلک أو یصیبھا وجع لا تحتملہ یستتروا منھا کل شییٴ إلا موضع العلة، ثم یداویھا الرجل ویغض بصرہ ما استطاع إلا عن موضع الجرح اھ فتأمل، والظاھر أن ینبغي ھنا للوجوب (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند