• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 146771

    عنوان: دوران حمل تکالیف کی وجہ سے بچہ دانی کا آپریشن کرانا؟

    سوال: ایک عورت کے چار بچے ہیں اور ابھی پا نچویں کی امید سے ہے اور ہر دفعہ دوران حمل بلڈپریشرکم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے طبیعت خراب رہتی ہے اور دوسرے بچے بھی چھوٹے ہیں جس کی وجہ سے تربیت پر بھی بہت اثرُ ہے اس صورت میں عورت کے لئے آ پریشن کرانا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 146771

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 187-168/N=3/1438

     

    سوال میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عورت کس چیز کا آپریشن کرانا چاہتی ہے؟ آیا وہ طبعی ولادت کے بجائے بہ ذریعہ آپریشن زچگی چاہتی ہے یا ہمیشہ کے لیے بچہ بند کرانے کا آپریشن کرانا چاہتی ہے؟ ویسے سوال سے بہ ظاہر دوسری صورت ظاہر ہوتی ہے۔

    پس اگر ایسا ہی ہے تو مذہب اسلام میں ہمیشہ کے لیے بندش کا آپریشن کرانا حرام وناجائز ہے ؛ کیوں کہ یہ تغییر لخلق اللہ ہے اور بحکم خصا ہے، صرف سخت مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اس کی گنجائش ہوتی ہے، جیسے: بچہ دانی سڑگئی یا اس میں کینسر ہوگیا جس کی وجہ سے اسے کاٹ کر نکال دینا ضروری ہو، ورنہ بچہ بندی کا آپریشن کرانا ہرگز جائز نہیں۔ اور دوران حمل بلڈ پریشر کا کم ہوجانا عام بات ہے ، بہت سی عورتوں کو ایسا ہوجاتا ہے اور دواوٴں سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے، اور رہا بچوں کی تربیت اور ان کی صحیح پرورش کا مسئلہ تو اس کے لیے دو بچوں کے درمیان مناسب وقفہ رکھا جائے اور مناسب وقفہ کے لیے منع حمل کی کوئی مناسب ومفید عارضی تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے، جیسے:دوران صحبت کنڈوم کا استعمال وغیرہ، اس کے لیے صورت مسئولہ میں بندش کا آپریشن کرانا جائز ودرست نہیں ہے۔ فإن الاختصاء فی الآدمی حرام صغیراً کان أو کبیراً(المنہاج شرح الصحیح لمسلم، ۱: ۴۴۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،وأما خصاء الآدمي فحرام (الدر المختار مع رد المحتار، ۹: ۵۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،و خصاء بني آدم حرام بالاتفاق (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند نقلاً عن الذخیرة)، والحجة فیہ أنھم اتفقوا علی منع الجب والخصاء فیلحق بذلک ما في معناہ من التداوي بالقطع أصلا ً(فتح الباري، کتاب النکاح، آخر باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم:من استطاع الباء ة فلیتزوج، ۹: ۱۴۱، ط:دار السلام، الریاض)، یحرم استعمال ما یقطع الحبل من أصلہ کماصرح بہ کثیرون وھو ظاھر(حاشیة البجیرمی علی الخطیب ، کتاب النکاح، فصل فی العدد، ۴: ۳۹۲، ط:دار الکتب العلمیة بیروت نقلاً عن ابن حجر المکي(رح))، لا بأس بقطع العضو إن وقعت فیہ الآکلة لئلا تسري (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۶۰)،أفاد وضع المسألةأن العزل جائز بالإذن وھذا ھو الصحیح عند عامة العلماء لما فی البخاري عن جابر(رض): کنا نعزل والقرآن ینزل،الخ (البحر الرائق ۳: ۳۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،فإذا فلا کراھة فی العزل عند عامة العلماء وھو الصحیح وبذلک تظافرت الأخبار ،وفی الفتح: وفي بعض أجوبة المشایخ: الکراھة وفي بعض عدمھا، نھر الخ (رد المحتار،کتاب النکاح، باب نکاح الرقیق ۴: ۳۳۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:تزوجوا الودود الولود فإني مکاثر بکم الأمم یوم القیامة (مشکاة المصابیح ص ۲۶۷نقلاً عن السنن لأبي داود والسنن للنسائي)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ذلک -العزل- الوأد الخفي ، وھي وإذا الموء ودة سئلت (المصدر السابق ص ۲۷۶نقلاً عن الصحیح لمسلم)،فالحدیث لا یدل علی حرمتہ غایتہ الکراھة (ھامش المشکاة ص ۲۷۶نقلاً عن اللمعات) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند