• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 146333

    عنوان: عورت کی کمائی جائز ہے یا ناجائز؟

    سوال: اگر مرد صحیح ہو اور کام کرسکتا ہو، اور کام نہیں کر رہا ہے، اور عورت کام کررہی ہے تو کیا عورت کی کمائی جائز ہے؟

    جواب نمبر: 146333

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 182-128/D=2/1438

    شریعت نے اصالةً عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی بلکہ مردوں کو کسب معاش کا ذمہ دار بنایا ہے چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان و نفقہ والد کے ذمہ اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیا ہے، یہی لوگ اس کے نان و نفقہ کے ذمہ دار ہیں۔

    اس لیے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یا مخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیار زندگی بلند کرنے اور زندگی میں خوشحالی پیدا کرنے کے واسطے گھر سے با ہر نکل کر ملازمت کی پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں۔

    لیکن عورت کو اگر معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری سے قاصر ہو یا تساہل کرتا ہو اور گھر میں رہ کر عورت کے لیے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہوتو ایسی مجبوری اور شدید ضرورت کے وقت عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر چند شرائط کے ساتھ نکل سکتی ہے۔

    (۱) ملازمت کا کام فی نفسہ جائز ہو یعنی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو کیونکہ ممنوع اور ناجائز کام کی ملازمت بہر صورت ناجائز ہے۔

    (۲) شرعی پردہ کی پوری رعایت کے ساتھ باہر نکلے یعنی لباس دبیز سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، لباس بھڑک دار پرکشش نیم عریاں قسم کا نہ ہو۔

    (۳) بناوٴ سنگار زیب و زینت کے ساتھ نہ نکلے۔

    (۴) دوران ملازمت مردوں کے ساتھ اختلاط بالکل نہ ہو۔

    (۵) ملازمت کی وجہ سے خانگی امور میں لاپرواہی اور حق تلفی لازم نہ آئے مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ بوقت ضرورت ملازمت کرنے کی گنجائش ہے اور مذکورہ شرطوں میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں گناہ اور ناجائز ہوگی۔

    بوقت ضرورت شرائط کے ساتھ اگر کوئی عورت ملازمت اختیار کرلیتی ہے تو اس کی آمدنی (تنخواہ) جائز ہے اور اس کی مالک وہ خود ہی ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند