• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 176569

    عنوان: مدرسہ کی وقف جگہ پر قبرستان بنانا

    سوال: مفتی صاحب ایک شخص کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں نے اپنے باپ کے لیے صدقہ جاریہ کی نیت سے تقریباً 8کنال سے زائد زمین وقف کی اور اس زمین پر مدرسہ بنانے کی ذمہ داری ایک مدرسہ کے زیر تعلیم طالب علم نے اٹھائی جوکہ عرصہ 6 سال گزر جانے کے باوجودتعلیم مکمل نہ کرسکااورعرصہ تین سال سے زائد سے نفسیاتی اورروحانی بیماریوں کا شکار ہے اور عرصہ 6 سال سے زائد گذر جانے کے باوجود مدرسے کے لیے کوئی سوچ بچار اور کوئی عملدرآمدنہ کیا گیا۔یہ زمین انتہا? پسماندہ علاقہ میں ایک چھوٹی سی آبادی میں واقعہ ہے جہاں قریب میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہے۔اہل محلہ کو قبرستان اشد ضرورت ہے کیا یہ زمین قبرستان کے لیے وقف کی جاسکتی ہے اور کیا کچھ زمین میں قبرستان اور کچھ سابقہ مالکان استعمال میں لاسکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 176569

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 597-545/L=08/1441

    وقف تام ہونے کے بعد موقوفہ چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، وقف تام ہوجانے کے بعد اس میں نہ تو سابقہ مالکان کا مالکانہ قبضہ جائز ہے اور نہ ہی اس کی جہت کی تبدیل جائز ہے؛ بلکہ وہ زمین جس جہت کے لئے وقف کی گئی ہے اس کو اسی کام میں صرف کرنا واجب ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر زمین مدرسہ بنانے کے لئے وقف کی گئی ہو تو اس میں مدرسہ بنانا لازم ہے، اس میں قبرستان بنانا یا سابقہ مالکان کا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔ واقفین اور اہل محلہ کو چاہئے کہ وہاں جلد از جلد دینی مدرسہ قائم کرنے کا انتظام کریں۔

    وفي درر الحکام: (وإذا لزم) الوقف (وتم لا یملک) أي لا یکون مملوکا لصاحبہ (ولا یملک) أي لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ ۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام: ۲/۱۳۵)۔ وفي رد المحتار: وفي فتاوی الشیخ قاسم: وما کان من شرط معتبر في الوقف فلیس للواقف تغییرہ ولا تخصیصہ بعد تقررہ ولا سیما بعد الحکم ۔ (رد المحتار: ۴/۴۵۹) وفي العقود الدریة: قال الخیریة قد صرحوا بوجوب مراعاة غرض حتی الأصولیون أن الغرض یصلح مخصصا ۔ (العقود الدریة: ۱/۱۳۷) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند