عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 176569
جواب نمبر: 176569
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 597-545/L=08/1441
وقف تام ہونے کے بعد موقوفہ چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، وقف تام ہوجانے کے بعد اس میں نہ تو سابقہ مالکان کا مالکانہ قبضہ جائز ہے اور نہ ہی اس کی جہت کی تبدیل جائز ہے؛ بلکہ وہ زمین جس جہت کے لئے وقف کی گئی ہے اس کو اسی کام میں صرف کرنا واجب ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر زمین مدرسہ بنانے کے لئے وقف کی گئی ہو تو اس میں مدرسہ بنانا لازم ہے، اس میں قبرستان بنانا یا سابقہ مالکان کا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔ واقفین اور اہل محلہ کو چاہئے کہ وہاں جلد از جلد دینی مدرسہ قائم کرنے کا انتظام کریں۔
وفي درر الحکام: (وإذا لزم) الوقف (وتم لا یملک) أي لا یکون مملوکا لصاحبہ (ولا یملک) أي لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ ۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام: ۲/۱۳۵)۔ وفي رد المحتار: وفي فتاوی الشیخ قاسم: وما کان من شرط معتبر في الوقف فلیس للواقف تغییرہ ولا تخصیصہ بعد تقررہ ولا سیما بعد الحکم ۔ (رد المحتار: ۴/۴۵۹) وفي العقود الدریة: قال الخیریة قد صرحوا بوجوب مراعاة غرض حتی الأصولیون أن الغرض یصلح مخصصا ۔ (العقود الدریة: ۱/۱۳۷) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند