عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 174286
جواب نمبر: 174286
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:187-193/N=3/1441
شریعت میں جس طرح مسجد اور مدرسہ دونوں الگ الگ وقف ہیں، اسی طرح ہر مدرسہ ، مکتب اور مسجد بھی الگ الگ وقف ہے، یعنی:جس طرح مسجد کا پیسہ وغیرہ مدرسہ میں یا مدرسہ کا پیسہ وغیرہ مسجد میں لگانا درست نہیں، اسی طرح کسی مسجد کا پیسہ وغیرہ دوسری مسجد میں اور کسی مدرسہ یا مکتب کا پیسہ وغیرہ دوسرے مدرسہ یا مکتب میں لگانا بھی درست نہیں؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں منظم مکتب والوں کا اپنا مکتب چلانے کے لیے مدرسہ حنفیہ فرقانیہ کے کمرے کا مطالبہ کرنا اور مدرسہ والوں کا انھیں مکتب چلانے کے لیے مدرسہ کا کوئی کمرہ وغیرہ دینا درست نہ ہوگا؛ کیوں کہ مدرسہ حنفیہ فرقانیہ کی ساری زمین اور عمارت، مدرسہ ہذا میں داخل طلبہ کی دینی تعلیم کے لیے ہے، مطلق دینی تعلیم کے نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص تعلیم کے نام پر مدرسہ ہذا میں اپنا مدرسہ یا مکتب چلانے لگے؛ البتہ اگر ذمہ داران مدرسہ ، منظم مکتب کا نظام اپنے مدرسہ میں مفید وبہتر محسوس کرتے ہیں تو وہ ادارہ دینیات (ممبئی)سے اس کی برانچ لے کر اپنے مدرسہ میں مدرسہ کی موجودہ انتظامیہ کے تحت منظم مکتب کا نظام قائم کرسکتے ہیں۔
قد تقرر عند الفقہاء أن مراعاة غرض الواقفین واجبة و أن نص الواقف کنص الشارع، کذا في عامة کتب الفقہ والفتاوی،مستفاد: البقعة الموقوفة علی جھة إذا بنی رجل فیھا بناء ووقفھا علی تلک الجھة یجوز بلا خلاف تبعاً لھا، فإن وقفھا علی جھة أخری، اختلفوا في جوازہ ، والأصح أنہ لا یجوز کذا فی الغیاثیة (الفتاوی الھندیة، کتاب الوقف،۲: ۳۶۲،ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وإن اختلف أحدھما بأن بنی رجلان مسجدین أو رجل مسجداً ومدرسة ووقف علیھما أوقافاً لا یجوز لہ ذلک (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۵۱،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الخیر الرملي: أقول: ومن اختلاف الجھة ما إذا کان الوقف منزلین أحدھما للسکنی والآخر للاستغلال، فلا یصرف أحدھما إلی الآخر، وھي واقعة الفتوی اھ (رد المحتار ۶: ۵۵۱)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند