• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 158806

    عنوان: مسجد میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگانے کا حکم

    سوال: کیا مسجد میں جہاں نماز ہوتی ہے سی سی ٹی وی کیمرہ لگانا جائز ہے؟ کیونکہ نماز کی ویڈیو بھی بنتی ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟

    جواب نمبر: 158806

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:571-640/N=7/1439

    اسلام میں تصویر کشی حرام وناجائز اور لعنت کا کام ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں(تفصیل کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبکا رسالہ تصویر کے شرعی احکام ملاحظہ فرمائیں) اور اکابر علمائے دیوبند کے فتاوی اور تصریحات کی روشنی میں ڈیجیٹل تصاویر، عام تصاویر ہی کے حکم میں ہیں، یعنی:نصوص شرعیہ دونوں ہی قسم کی تصاویر کو شامل ہیں اور سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کرنے میں تصویر کشی پائی جاتی ہے؛ بلکہ اس کے ذریعہ کیمرے کی کارکردگی کی حد تک گذرنے والے اور آنے جانے والوں کی تصاویر اور ان کی ہر نقل وحرکت باقاعدہ محفوظ وریکارڈ ہوتی ہے، گویا سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا مطلب ہے: روزانہ کیمرے کے ذریعے ہزاروں انسانوں کی تصاویر کشی کرنا۔ اور کسی حرام کے مباح ہونے کے لیے شریعت نے جس ضرورت ومجبوری کا اعتبار کیا ہے، وہ سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کرنے میں نہیں پائی جاتی ؛ اس لیے مسجد وغیرہ میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگانا جائز نہیں ہے۔

    فالضرورة بلوغہ حداً إن لم یتناول الممنوع ھلک أو قارب وھذا یبیح تناول الحرام، والحاجة کالجائع الذي لو لم یجد ما یأکلہ لم یھلک غیر أنہ یکون في جھد ومشقة، وھذا لا یبیح الحرام ویبیح الفطر فی الصوم (غمز عیون البصائر شرح الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ۱: ۲۷۷، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،الضرورة ھي الحالة الملجئة لتناول الممنوع شرعاً، والحاجة: أما الحاجة فإنھا وإن کانت حالة جھد ومشقة فھي دون الضرورة ولا یتأتی معھا الھلاک فلذا لا یستباح بھا الممنوع شرعاً، مثال ذلک: الصائم المسافر بقاوٴہ صائماً یحملہ جھداً ومشقة فیرخص لہ الإفطار لحاجتہ للقوة علی السفر (درر الحکام شرح مجلة الأحکام، ۱: ۳۸، ط: دار عالم الکتب الریاض)، الضرورة ھي خوف الضرر بترک الأکل إما علی نفسہ أو علی عضو من أعضائہ (أحکام القرآن للجصاص، باب في مقدار ما یأکل المضطر،۱: ۱۶۰)، وإن ھذا التعریف وإن کان مختصاً بضرورة أکل المحرم ولکنہ یشمل تعاطي کل محظور بشرط أن یکون ھناک خوف علی النفس أو العضو کارتکاب الکذب أو المحظورات الأخری في حالة الإکراہ الملجیٴ، ویجب لتحقق الضرورة أمور: الأول أن یکون ھناک خوف علی النفس أو علی العضو، الثاني: أن تکون الضرورة قائمة لا منتظرة بمعنی أن یقع خوف الھلاک أو التلف بغلبة الظن حسب التجارب لا مجرد وھم بذلک، الثالث: أن لا یکون لدفع الضرر وسیلة أخری من المباحات ویغلب علی ظن المبتلی بہ أن دفع الضرر متوقع بارتکاب بعض المحرمات الخ (أصول الإفتا وآدابہ، ص ۲۶۸، ۲۶۹،ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وأما المنھیات التي تباح عند الضرورة کإتلاف مال الغیر وشرب المسکر فإنھا تحل بل تجب بالملجیٴ لا بغیر الملجیٴ (شرح القواعد الفقہیة،ص: ۱۵۹، ط: دار القلم للطباعة والنشر والتوزیع، دمشق)، والظاھر أن ما یجوز للحاجة إنما یجوز فیما ورد فیہ نص یجوزہ أو تعامل أو لم یرد فیہ شیٴ منھما ولکن لم یرد فیہ نص یمنعہ بخصوصہ وکان لہ نظیر فی الشرع یمکن إلحاقہ بہ وجعل ما ورد في نظیرہ وارداً فیہ (شرح القواعد الفقہیة، ص ۲۱۰)،وأما ما ورد فیہ نص یمنعہ بخصوصہ فعدم الجواز فیہ واضح ولو ظنت فیہ مصلحہ؛ لأنھا وھم (ر: ما سیأتي تحت القاعدة: ۳۸) (المصدر السابق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند