• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 153931

    عنوان: سود کے پیسوں سے مسجد کا بیت الخلاء تعمیر کرنا؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! سیونگ اکاوٴنٹ میں جو انٹریسٹ آتا ہے اس پیسے کو ہم مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیر میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟

    جواب نمبر: 153931

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1353-1350/N=1/1439

    بینک کے کسی بھی اکاوٴنٹ کا انٹرسٹ مسجد کے بیت الخلاء یا غسل خانہ وغیرہ کی تعمیر میں لگانا جائز نہیں ہے۔ بینک کے انٹرسٹ کا صحیح مصرف یہ ہے کہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیا جائے۔ اور اگر بینک سرکاری ہو تو اس کا انٹرسٹ انکم ٹیکس، سیل ٹیکس اور ویٹ ٹیکس وغیرہ غیر شرعی سرکاری ٹیکسس میں بھی بھر سکتے ہیں، باقی کسی اور جگہ بینک کا انٹرسٹ نہیں لگ سکتا۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء………،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ(إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة:غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ،…،زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹: ۲۶۶، ۲۶۹) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند