• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 10060

    عنوان:

    تجارتی حلقہ میں ایک مرحومہ نے اپنی جائداد مرنے سے قبل تین حصوں میں وقف کر دی تھی۔ ایک حصہ مسجد میں، ایک حصہ اپنی اکلوتی بیوہ بیٹی کو، اور ایک حصہ اپنی نواسی کو۔ (۲)وقف شدہ جائیداد میں ایک دکان بھی واقع ہے اور اس میں ایک کرایہ دار آج بھی بہت ہی معمولی کرایہ پر ہے۔ (۳)آج اس دکان کا کم سے کم کرایہ سات سے آٹھ ہزار ماہانہ آسکتا ہے لیکن جو صاحب اس وقت دکان میں ہیں وہ صرف 115روپیہ ماہوار ادا کررہے ہیں۔ (۴)کرایہ دار کے والد مرحوم نے تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا تھا کہ جب بھی مکان مالکن کہیں گی دکان خالی کردی جائے گی۔(۵)وقف شدہ جائداد کی دکان کی تجارتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حالیہ کرایہ دار نے اس ڈر سے کہ اگر مسجد کے علاوہ یہ جائداد کسی اور کی تحویل میں چلی جائے گی وہ صاحب (دکاندار) نے ایک پیشکش کی کہ اگر یہ جائداد مسجد کی تحویل میں آتی ہے تو وہ صاحب (دکاندار) دو لاکھ روپیہ دیں گے۔ جس کو پنچایت نے ایک عطیہ سمجھا اور ان صاحب (دکاندار) کو ایک اقرار نامہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا اور انھیں صاحب نے وقف شدہ جائداد کی قیمت ساڑھے چار لاکھ روپیہ مقرر کردی جب کہ اس کی قیمت کہیں زیادہ تھی۔ چونکہ جائداد تین حصوں میں وقف کی گئی تھی اور دو لاکھ کی پیشکش دینے والے صاحب (دکاندار) نے .....

    سوال:

    (۱) تجارتی حلقہ میں ایک مرحومہ نے اپنی جائداد مرنے سے قبل تین حصوں میں وقف کر دی تھی۔ ایک حصہ مسجد میں، ایک حصہ اپنی اکلوتی بیوہ بیٹی کو، اور ایک حصہ اپنی نواسی کو۔ (۲)وقف شدہ جائیداد میں ایک دکان بھی واقع ہے اور اس میں ایک کرایہ دار آج بھی بہت ہی معمولی کرایہ پر ہے۔ (۳)آج اس دکان کا کم سے کم کرایہ سات سے آٹھ ہزار ماہانہ آسکتا ہے لیکن جو صاحب اس وقت دکان میں ہیں وہ صرف 115روپیہ ماہوار ادا کررہے ہیں۔ (۴)کرایہ دار کے والد مرحوم نے تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا تھا کہ جب بھی مکان مالکن کہیں گی دکان خالی کردی جائے گی۔(۵)وقف شدہ جائداد کی دکان کی تجارتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حالیہ کرایہ دار نے اس ڈر سے کہ اگر مسجد کے علاوہ یہ جائداد کسی اور کی تحویل میں چلی جائے گی وہ صاحب (دکاندار) نے ایک پیشکش کی کہ اگر یہ جائداد مسجد کی تحویل میں آتی ہے تو وہ صاحب (دکاندار) دو لاکھ روپیہ دیں گے۔ جس کو پنچایت نے ایک عطیہ سمجھا اور ان صاحب (دکاندار) کو ایک اقرار نامہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا اور انھیں صاحب نے وقف شدہ جائداد کی قیمت ساڑھے چار لاکھ روپیہ مقرر کردی جب کہ اس کی قیمت کہیں زیادہ تھی۔ چونکہ جائداد تین حصوں میں وقف کی گئی تھی اور دو لاکھ کی پیشکش دینے والے صاحب (دکاندار) نے قیمت ساڑھے چار لاکھ مقرر کی تھی اس طرح ایک ایک فریق کو دیڑھ دیڑھ لاکھ روپیہ آئے۔ باقی دو فریق نے سوچا (مرحومہ کی بیٹی اور نواسی) جائداد مسجد میں جارہی ہے اس لیے انھوں نے دیڑھ لاکھ پر اکتفا کیا۔ چونکہ جائداد کی قیمت ساڑھے چار لاکھ مانی گئی تھی اور دکاندار نے دو لاکھ دئے تھے اور باقی فریق کو تین لاکھ دینا تھا مسجد کو اپنے حصہ کے علاوہ (ڈھائی لاکھ )ایک لاکھ ان دو فریق (بیٹی اور نواسی) کو دینے پڑے اور اس طرح مسجد نے ڈاھائی لاکھ ادا کئے۔ (۶)کیوں کہ اب وقف شدہ جائداد مکمل طور پر مسجد کی تحویل میں آچکی ہے۔ اور باقی دو فریق (بیٹی اور نواسی) نے مسجد کے حق میں ہبہ نامہ بھی لکھ کر دے دیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کیا (الف)وقف شدہ جائداد کا فائدہ مسجد کو ملنا چاہیے یا اس شخص (دکاندار) کو جس نے دو لاکھ کا تعاون کیا، جب کہ مسجد نے ڈھائی لاکھ خرچ کیا ہے؟ (ب) جن صاحب (دکاندار) نے تعاون کیا ہے ان کو پنچایت نے پیشکش کیا کہ ان کا زر تعاون دولاکھ روپیہ شکریہ کے ساتھ لوٹانے کو تیار ہیں لیکن وہ صاحب اس کا کوئی جواب نہیں دیتے نہ ہی کرایہ بڑھانے کو ہی تیار ہیں۔ مسجد کمیٹی اب اس پس و پیش میں ہے اس کا کیا حل نکالا جائے؟ برائے مہربانی شریعت کے حساب سے اس کا حل تجویز کریں۔ برائے مہربانی فیصلہ سے جلد سے جلد تحریری طور پر مطلع کریں۔ عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 10060

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 85=85/ د

     

    صورتِ مسئولہ میں حکم یہ ہے کہ نواسی اور بیٹی نے جب عوض لے کر اپنا حصہ مسجد کو ہبہ کردیا تو یہ ہبہ درست ہوگیااور پوری جائیداد مسجد کی ملکیت ہوگئی، جس کرایہ دار نے دو لاکھ روپئے ادا کیا ہے اس کو اس کے روپئے واپس کردیئے جائیں۔ پھر اس دکان کو مسجد کی تحویل میں لے لیا جائے اوردوسرے کسی اچھے کرایہ دار کو وہ دکان دے دی جائے اور اس سے اس دکان کا کرایہ ماہانہ سات یا آٹھ ہزار روپئے یا جو واجبی کرایہ ہو لیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند