• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 171935

    عنوان: تکمیل قرآن کے موقع پر تقریبات کا حکم

    سوال: عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ رمضان میں تراویح میں جب قران مکمل ہوتا ہے اس وقت تکمیل قران کی تقریب ہوتی ہے۔ جس میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور علماء تشریف لاتے ہیں اور بیانات بھی ہوتے ہیں اور آخر میں شیرینی وغیرہ بھی تقسیم ہوتی ہے، اور ایسی تقریبات رات گئے جاری رھتی ہیں۔ میرے سوال یہ ہیں کہ۔ 1۔کیا ایسی تقریبات کی حوصلہ افزائی کرنی چاھئے جس میں علماء بیانات فرما کر پیسے بھی لیتے ہیں؟ 2۔نعت خواں نعتیں پڑھتے ہیں پھر ان کو پیسے بھی دیئے جاتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ 3۔ شیرینی یا مٹھائی کی تقسیم کے وقت مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہو تو مٹھائی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ 4- یہ بھی دیکھا گیا کہ دوران بیان اور دوران نعت خوانی لوگ روپیہ لٹاتے اور نچھاور کرتے ہیں کیا اسکی اجازت ہماری شریعت دیتی ہے؟ 5- عام طور پر ایسی تقریبات آخری عشرہ کی طاق راتوں میں منعقد ہوتی ہیں جو رات گئے جاری رہتی ہیں اور علماء اسکو شب بیداری میں شمار کرتے ہیں، کیا ایسا کہنا درست ہے؟ 6- معتکف حضرات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں، کیا ان کا اعتکاف متاثر تو نہیں ہوتا؟ 7- گو کہ اس موقع پر مسجد کا اندرونی اسپیکر استعمال ہوتا ہے مگر پھر بھی قریبی گھر والے اس سے متاثر ہوتے ہیں، ایسی صورتحال میں ایسی تقریبات کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ 8- جو علماء دوسری جگہوں سے آتے ہیں انہوں نے اسی رات میں اور بھی نہ جانے کتنی جگہ اور جانا ہوتا ہے جس بنا پر وہ مختصر اور بہت جلدی جلدی آدھی پونی بات کرکے تقریبا بھاگنے کی کرتے ہیں، اس بارے میں بھی راہنمائی فرمائیں؟ یہ سارے حالات میں اپنے ان علماء کے بارے پوچھ رہا ہوں جو ہمارے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آپکے جواب کا منتظر رہوں گا۔

    جواب نمبر: 171935

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1006-183T/sn=12/1440

    تکمیل قرآن کے موقع پر مسجد میں تقریب منعقد کرنا، نعتیں پڑھوانا ، بیان کرنے اور نعت پڑھنے والوں پر عوام کا روپیہ لُٹانا اورچندہ وغیرہ کی رقم سے شیرینی کی تقسیم وغیرہ ن سب کا مجموعہ منکرات میں سے ہے، اس سے احتراز ضروری ہے، رمضان کی طاق راتوں کا اِحیا بلا شبہ باعث اجر وثواب ہے؛ لیکن یہ انفراداً مطلوب ہے نہ کہ اجتماعا ؛ اس لیے مذکور فی السوال نوعیت کے اجتماع کے ذریعے رات زندہ کرنا شرعا ممنوع ہے، علما کو چاہیے کہ اس طرح کے منکرات پر نکیر کریں نہ یہ کہ ان میں شرکت کرکے عملاً تائید کریں۔

    ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلة من ہذہ اللیالی"المتقدم ذکرہا فی المساجد وغیرہا لأنہ لم یفعلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا الصحابة فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز منہم عطاء وابن أبی ملیکة وفقہاء أہل المدینة وأصحاب مالک وغیرہم وقالوا: ذلک کلہ بدعة ولم ینقل عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا عن أصحابہ إحیاء لیلتی العیدین جماعة .(حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: 402،ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند