• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 169830

    عنوان: اجتماعی قرآن خوانی اور اس میں شیرینی کھلانے کا حکم

    سوال: قرآن پاک کے لیے ایصال ثواب کے لیے بلانا اور شیرینی کھلانا کیسا ہے؟

    جواب نمبر: 169830

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:721-637/n=8/1440

     گھر یا دوکان وغیرہ میں خیر وبرکت کے لیے یا کسی مرحوم کو ایصال ثواب کے لیے جو قرآن خوانی ہوتی ہے، اس میں حسب عرف وعادت خاص قرآن پڑھنے والوں کو جو کھانا کھلایا جاتا ہے یا ناشتہ کرایا جاتا ہے ، اس سے احتراز چاہیے؛ کیوں کہ یہ اگر قرآن خوانی کی اجرت نہ ہو تو اس میں کم از کم اجرت کا شائبہ ضرور ہے(تذکرة الرشید، ۱: ۲۰۳، مطبوعہ: دار الکتاب دیوبند)؛ بلکہ اجتماعی طور پر قرآن خوانی کا رواج ہی مختلف شرعی خرابیوں کی بنا پر قابل ترک ہے، برکت کے لیے خود گھر یا دکان کا مالک، اعمال صالحہ کا اہتمام کرے اور گناہوں سے بچے،اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور گھر سے کہیں جاتے وقت سلام وغیرہ کا اہتمام کرے ؛کیوں کہ گھر پہنچ کر اہل خانہ کو سلام کرنا اپنے لیے اور اہل خانہ کے لیے برکت کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ حضرت انسکی روایت میں آیا ہے (مشکوة شریف ص ۳۹۹، بحوالہ: سنن ترمذی)یا گاہے گاہے کسی نیک وصالح عالم دین یا بزرگ کو بلاکر خیر وبرکت کی دعا کرالی جائے۔

    عن العیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ة الأجزاء بالأجرة لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ة وإعطاء الثوب للآمر والقراء ة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر؟ ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزکان؛ بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون (رد المحتار، کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ۹:۷۷ط: مکتبہ زکریا دیوبند)، والحاصلُ أن اتخاذ الطعام عند قراء ة القرآن لأجل الأکل یکرہ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۳: ۱۴۸)، قراء ة الکافرون إلی الآخر مع الجمع مکروھة ؛لأنھا بدعة لم تنقل عن الصحابة ولا عن التابعین رضي اللہ عنھم کذا فی المحیط (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراھیة، الباب الرابع فی الصلاة والتسبیح الخ، ۵: ۳۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ونقلہ عنہ مولانا العلامة محمد منظور النعمانيفي إمعان النظر في أذان القبر،یعنی: اذان قبر کا تحقیقی جائزہ ص۱۴)، قال حذیفة رضي اللہ عنہ: کل عادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا فإن الأول لم یدع للآخر مقالاً فاتقوا اللہ یا معشر القراء وخذوا بطریق من کان قبلکم ونحوہ لابن مسعود أیضا (الموافقات، ۳: ۵۳)،عن عائشة رضي اللہ عنھا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد متفق علیہ، وعن جابر رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أما بعد فإن خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشر الأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة رواہ مسلم (مشکاة المصابیح ،کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، الفصل الأول، ص ۲۷،ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند