• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 160647

    عنوان: معیشۃ ضنکا سے کیا مراد ہے؟

    سوال: سوال یہ ہے قال اللہ تعالی "وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِی فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَةً ضَنکًا" کا مصداق کوں ہیں احادیث مبارکہ عن أبی ہریرة ، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : المؤمن فی قبرہ فی روضة خضراء ، ویرحب لہ فی قبرہ سبعون ذراعا ، وینور لہ قبرہ کالقمر لیلة البدر ، أتدرون فیم أنزلت ہذہ الآیة : ( فإن لہ معیشة ضنکا ) ؟ أتدرون ما المعیشة الضنک؟ " قالوا : اللہ ورسولہ أعلم . قال : عذاب الکافر فی قبرہ ، والذی نفسی بیدہ ، إنہ لیسلط علیہ تسعة وتسعون تنینا ، أتدرون ما التنین؟ تسعة وتسعون حیة ، لکل حیة سبعة رؤوس ، ینفخون فی جسمہ ، ویلسعونہ ویخدشونہ إلی یوم یبعثون " عن أبی ہریرة ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قول اللہ عز وجل : ( فإن لہ معیشة ضنکا ) قال : "المعیشة الضنک الذی قال اللہ تعالی : أنہ یسلط علیہ تسعة وتسعون حیة ، ینہشون لحمہ حتی تقوم الساعة " . وقال أیضا : حدثنا أبو زرعة ، حدثنا أبو الولید ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن محمد بن عمرو ، عن أبی سلمة ، عن أبی ہریرة ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ( فإن لہ معیشة ضنکا ) قال : " عذاب القبر " . إسناد جید․ سے واضح ہے کہ ان کا اصل مصداق صرف کفار ہیں۔ کیا یہ ایت مبارکہ دنیا کے اعتبار سے ان ایمان والوں پر بھی صادق آتی ہے جو ذکر اللہ سے اپنی غفلت کی بنا پر کٹے ہوئے ہیں۔ آپ کے جواب کا منتظر

    جواب نمبر: 160647

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 811-736/D=8/1439

    اس آیت میں ذکر سے مراد یا تو تلاوت قرآن اور اس کے احکم سے اعراض ہے یا حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت سے اعراض ہے، پھر اس کے دو انجام کا ذکر ہے:

    (۱) قیامت سے پہلے دنیا میں اور قبر میں اس کی معیشت تنگ ہوگی۔

    (2)قیامت میں اس کو اندھا کرکے اٹھایا جائے گا اور کتب احادیث و تفاسیر میں اس آیت کا مصداق بہ صراحت کافروں کو قرار دیا گیا ہے؛ لہٰذا مومنین اس آیت کے مصداق نہیں ہوں گے یہی راجح تفسیر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند