عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 159843
جواب نمبر: 159843
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:726-58T/M=7/1439
آیت میں ”ماعون“ سے مراد جمہور مفسرین رحمہم اللہ کے نزدیک زکاة ہے چنانچہ حضرت مفتی شفیع صاحب عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”ماعون کے اصل لفظی معنی شئ قلیل وحقیر کے ہیں اس لیے ماعون ایسی استعمالی اشیاء کو کہا جاتا ہے جو عادةً ایک دوسرے کو عاریةً دی جاتی ہیں اور جن کا باہم لین دین عام انسانیت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے جیسے کلہاڑی ،پھاوڑہ یا کھانے پکانے کے برتن جن کا ضرورت کے وقت پڑوسیوں سے مانگ لینا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا اور جو اس میں دینے سے بخل کرے وہ بڑا کنجوس کمینہ سمجھا جاتا ہے مگر آیت مذکورہ میں لفظ ماعون سے مراد زکاة ہے اور زکاة کو ماعون اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ مقدار کے اعتبار سے نسبةً بہت قلیل ہے یعنی صرف چالیسواں حصہ، حضرت علی، ابن عمر رضی اللہ عنہما، حسن بصری، قتادہ، ضحاک رحمہم اللہ وغیرہ مفسرین نے اس آیت میں ماعون کی تفسیر زکاة ہی سے کی ہے۔ (مظہری۔ اور اس کے نہ دینے پر جو عذاب اہل جہنم کا مذکور ہے وہ بھی ترک فرض ہی پر ہوسکتا ہے، اشیاء استعمالی کا دوسروں کو نہ دینا بہت بڑا ثواب اور انسانیت ومروت کے لحاظ سے ضروری سہی مگر فرض وواجب نہیں، جس کے روکنے پر جہنم کی وعید ہو، اور بعض روایات حدیث میں جو اس جگہ ماعون کی تفسیر استعمالی اشیاء اور برتنوں سے کی گئی ہے اس کا مطلب ان لوگوں کی انتہائی خسّت کا اظہار ہے کہ یہ زکاة تو کیا دیتے استعمالی اشیاء جن کے دینے میں اپنا کچھ خرچ نہیں ہوتا اس میں بھی کنجوسی کرتے ہیں تو وعید صرف ان اشیاء کے نہ دینے پر نہیں بلکہ زکاة فرض کی عدم ادائیگی اور اس کے ساتھ مزید بخل شدید پر ہے۔ (معارف القرآن: ۸/ ۸۲۶) برتنے کی چیز میں آج کل کے عرف کے اعتبار سے موبائل کا چارجر، بستر، جاربائی، سیڑھی وغیرہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔
(۲،۳) ایسی چیزیں پڑوسیوں وغیرہم کے مانگنے پر نہ دینا انسانیت ومروت کے خلاف ہے اس لیے انکار خلافِ اولیٰ ہے لیکن اگر دینے میں گم کردینے یا نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہو تو ضرر وحرج وپریشانی سے بچنے کے لیے مناسب طریقے پر معذرت کردینے میں مضائقہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند