• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 148762

    عنوان: موبائل فون میں قرآن مجید کی ایات جب اسکرین پر ہو تو بغیر وضو اسکرین کو ہاتھ لگانا،مدلل جواب مرحمت فرمائے ۔

    سوال: سوال: کیا مندرجہ ذیل مفتی صاحب کی تحقیق کہ موبائل فون میں قرآن مجید کی ایات جب اسکرین پر ہو تو بغیر وضو اسکرین کو ہاتھ لگانا جائز ہے ، کیا اس تحقیق سے آپ متفق ہیں؟مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔ موبائل میں قرآن کو پڑھنا،قرآن کریم کی تلاوت موبائل، ٹیبلٹ یا کمپیوٹر کی اسکرین پر تلاوت کرنا جائز ہے ؟ اس صورت میں بھی وہی آداب ِ تلاوت ہوں گے جو مصحف میں دیکھ کر پڑھنے کے وقت ہوتے ہیں۔موبائل وغیرہ کی اسکرین پر اگر قرآن کریم کے نقوش نہ ہو تو اس کو بالاتفاق غیر متوضی( بلاوضو) یا جنبی ہاتھ لگا سکتا ہے ۔لیکن اگر قرآن کریم کے نقوش اسکرین پر موجود ہوں تو جنبی یا غیر متوضی اس موبائل یا اسکرین کو چھو سکتا ہے یا نہیں اس میں تین اقوال ہیں۔ ۱... موبائل، کمپیوٹر ٹیبلٹ کی اسکرین کو اس وقت چھونا جائز نہیں،ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ اس حالت میں مصحف کے مانند ہے اور ارشاد ربانی ہے :لایمسہ الا المطھرون،اس کے قائل شیخنا و سندنا و سیدنا حضرت مولانا مفتی احمد صاحب مد ظلہ ہیں اور دار العلوم کا بھی یہی فتوی ہے نیز\" الفتاوی مھمہ فی ماابتلت بہ العامہ \" نامی کتاب میں بھی یہی مذکور ہے ۔ ۲... صرف جس اسکرین پر قرآن کریم کے نقوش ظاہر ہو رہے ہیں اس کا چھونا جائز نہیں، موبائل و کمپیوٹر کے دیگر پارٹس کو بلا وضو بھی چھو سکتے ہیں۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دیگر پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہوں گے ۔ملاحظہ فرمائیے ۔جواب… واضح رہے کہ جب قرآن کریم موبائل یا میمو ری کارڈ کے اندر ہو یعنی اس کو اسکرین پر کھولا نہ گیا ہو، تو اس وقت چوں کہ قرآن کریم حروف ونقوش کی صورت میں موجود نہیں اس لیے اس کو ہاتھ لگانے کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں۔اور جب موبائل یا میموری کارڈ کے حافظے میں موجود قرآن کریم کو اسکرین پر کھول لیا جائے تو اس وقت چوں کہ اسکرین پر موجود نقوش قرآن کریم کے الفاظ پر دلالت کرتے ہیں، اس وقت اسکرین پر ہاتھ لگانے کے لیے وضو ہونا ضروری ہے او راس صورت میں چوں کہ قرآن کریم کا صرف وہی حصہ حروف کی شکل میں ہے جو اسکرین پر نظر آرہا ہے ، لہٰذا اسکرین کو ہاتھ لگانا طہارت کے بغیر جائز نہ ہو گا اور اسکرین کے علاوہ موبائل کے بقیہ حصوں کو ہاتھ لگانا جائز ہو گا۔البتہ عظمت کا تقاضہ اور مناسب و احوط یہ ہے کہ بقیہ حصوں کو وضو کے ساتھ چھوا جائے ۔ جامعہ علوم الاسلامیہ ۳... تیسرا قول یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی ہاتھ لگا سکتے ہیں اور دیگر پارٹس کو بھی، ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک کاغذ پر قرآن کریم لکھ کر اس کو فریم میں کردیا ہو۔ملاحظہ فرمائیں۔موبائل یا کمپیوٹر اسکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو بلا وضو یا حالتِ جنابت میں چُھونا جائز ہے ، کیونکہ موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین پر جو آیات نظر آتی ہیں، وہ“ سافٹ وئیر ” ہیں یعنی ایسے نقوش ہیں، جنہیں چُھوا نہیں جاسکتا ۔نیز ماہرین کے مطابق یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے بلکہ“ ریم ”پر بنتے ہیں اور شیشے سے نظر آتے ہیں لہٰذا اسے مصحفِ قرآنی کے “غلافِ منفصل” پر قیاس کیا جاسکتا ہے یعنی ایسا غلاف جو قرآنِ کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو بلکہ اس سے جُدا ہو۔ اس کے ساتھ قرآنِ کریم چُھونے کو حضرات فقہائے کرام کی صراحت کے مطابق جائز قراردیا گیا ہے (دیکھئے الدر المختار ج1 ص293 وھندیہ ج1 ص39 وحاشیة الطحطاوی علی المراقی ص27 ،28) اسکرین پر نظر آنے والی آیات کی مثال ایسی ہی ہے کہ گویا قرآنی آیات کسی کاغذ پر لکھی ہوئی ہوں اور وہ کاغذ کسی شیشے کے بکس میں پیک ہو ، پھر باہر سے اس شیشے کو چُھوا جائے تو اس میں شرعاًکوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کیونکہ غلافِ منفصل کی طرح ایک تو یہ شیشہ اس جگہ سے جُدا ہے ، جہاں آیات کے نقوش بن رہے ہیں۔ نیز فقہائے کرام نے صندوق کی مثال دے کر فرمایا کہ اگر اُس کے اندر مصحف موجود ہو تو اس صندوق کوجنبی (مجنب) شخص کے لیے اُٹھانا اور چُھونا جائز ہے ، لہٰذا موبائل یا کمپیوٹر سکرین پر نظر آنے والی قرآنی آیات کو حالتِ جنابت میں یا بلا وضو چُھونا اور پکڑنا جائز ہے اور بے وضو شخص کے لیے اس سے تلاوت کرنا بھی جائز ہے ۔بندے کے نزدیک۔ قول اول احوط قول ثانی اوسط اورقول ثالث اصح ہے ۔

    جواب نمبر: 148762

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 464-406/Sd=6/1438

    جس وقت موبائل اسکرین پر قرآنِ کریم کی آیات واضح طور پر نظر آرہی ہیں، تو اُن کو بلاوضو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، بظاہر شیشہ حائل نظر آتا ہے؛ لیکن وہ حقیقت میں منفصل نہیں ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں ہمارے نزدیک پہلا قول ہی صحیح ہے۔چند اہم عصری مسائل میں ہے : ” اسکرین پر جس وقت قرآنی آیات نظر آتی ہوں، اُس وقت اس پر ہاتھ نہ لگائیں؛ اس لیے کہ یہاں اگرچہ درمیان میں شیشہ حائل ہے؛ لیکن وہ بظاہر منفصل نہیں ہے“ ( ۲/۱۰۴ )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند