متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 69716
جواب نمبر: 69716
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1363-1373/N=1/1438
(۱): آپ کے ذہن میں اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جو برے خیالات آتے ہیں، یہ ایمان کی علامت ہے، آپ ان سے پریشان نہ ہوں، بعض صحابہ کرام کو بھی یہ حالت پیش آئی تھی، انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر فرمایا تو آپ نے ایسے موقع پر اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم فرمایا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی ایسے موقع پر یہ کہہ لیا کرے: آمنتُ باللہ ورُسُلِہ(مسلم شریف :۷۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند )،اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسنون یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرے (مرقاة المفاتیح، ۱: ۲۲۸، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت)، پس دونوں کو جمع کرتے ہوئے یوں کہا جائے:أعوذ باللہ من الشیطان، آمنتُ باللہ ورُسُلہ، اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اس طرح کا وسوسہ آئے تو آدمی مزید (غور وفکر کرنے )سے باز آجائے(مسلم شریف۱:۷۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)؛ لہٰذا آپ کو جب اللہ تعالی کے بارے میں کوئی نامناسب وسوسہ آئے تو اس میں اپنے آپ کو الجھانے سے بچیں، فوراً شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہوئے اور اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان کا اقرار کرتے ہوئے یہ کہہ لیا کریں: أعوذ باللہ من الشیطان، آمنتُ باللہ ورُسُلہ، انشاء اللہ کچھ ہی عرصہ میں آپ کی یہ پریشانی دور ہوجائے گی، اللہ تعالی جلد از جلد آپ کو اس پریشانی سے نجات عطا فرمائیں ۔
(۲): اگر آپ نے ان خیالات کو قبول نہیں کیا؛ بلکہ دل سے برا ہی سمجھا جیسا کہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے تو آپ کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑا؛ لہٰذا آپ کو تجدید ایمان یا نکاح کی کوئی ضرورت نہیں، آپ پریشان نہ ہوں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند