متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 153822
جواب نمبر: 153822
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1254-1300/sd=12/1438
من مات ولیس في عنقہ بیعة، مات میتة الجاہلیة ممکن ہے کہ اس حدیث سے بعض لوگوں کو شبہ ہوگیا ہو کہ یہاں بیعت سے تصوف کی بیعت مراد ہے؛ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لیس في عنقہ بیعة کنایہ ہے خروج عن طاعة الامام سے اور یہ محقق ہے وقت تحقق امام کے اور جب امام نہ ہو، تو اس معنی کر ولیس فی عنقہ بیعة صادق نہیں آتا۔ (امداد الفتاوی: ۵/۱۰۱) اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے جو سنا ہے، وہ صحیح نہیں ہے؛ ہاں اخلاقِ فاضلہ پیدا کرنے اور اخلاقِ رذیلہ کو دور کرنے کے لیے کسی متبع سنت اللہ والے سے بیعت ہونا اور ذاتی زندگی میں نگراں مقرر کرنا اسلاف کا معمول ہے، یہ اللہ تک پہنچنے کا موٴثر ذریعہ ہے؛ لیکن مسلمان کی نجات بیعت پر موقوف نہیں ہے، اصل زندگی میں احکام کا اتباع اور ظاہر وباطن کی اصلاح ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند