• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 9536

    عنوان:

    میری پیدائش اور پرورش ایک حنفی مسلم گھرانے میں ہوئی تھی۔ میں شافعی مسلک کی پیروی کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ بحث و مباحثہ کے بعد اور مختلف بھائیوں سے سن کر میں نے تھوڑا بہت اس بات کا یقین کرلیا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا اوررفع یدین کرنا درست ہے۔ میں ایک دنیادار آدمی ہوں لیکن میں پختہ یقین رکھتاہوں کہ ایک ہی مسلک کی پیروی کرنا درست ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیامسلک کو تبدیل کرنے کی اجازت ہے؟ اگر نہیں ہے، تو کیوں؟ اگر اجازت ہے، تومجھے اس کو تبدیل کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا؟برائے کرم میری کچھ کتابوں کی جانب رہنمائی فرماویں جن کا میں اپنے شکوک و شبہات کو رفع کرنے کے لیے مطالعہ کرسکوں۔

    سوال: میری پیدائش اور پرورش ایک حنفی مسلم گھرانے میں ہوئی تھی۔ میں شافعی مسلک کی پیروی کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ بحث و مباحثہ کے بعد اور مختلف بھائیوں سے سن کر میں نے تھوڑا بہت اس بات کا یقین کرلیا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا اوررفع یدین کرنا درست ہے۔ میں ایک دنیادار آدمی ہوں لیکن میں پختہ یقین رکھتاہوں کہ ایک ہی مسلک کی پیروی کرنا درست ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیامسلک کو تبدیل کرنے کی اجازت ہے؟ اگر نہیں ہے، تو کیوں؟ اگر اجازت ہے، تومجھے اس کو تبدیل کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا؟برائے کرم میری کچھ کتابوں کی جانب رہنمائی فرماویں جن کا میں اپنے شکوک و شبہات کو رفع کرنے کے لیے مطالعہ کرسکوں۔

    جواب نمبر: 9536

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1500=246/ ل

     

    آپ نے مسلک تبدیل کرنے کے سلسلے میں دو وجہیں ذکر کی ہیں (سورہٴ فاتحہ کا پڑھنا اور رفع یدین کرنا درست ہے) ان کی بناء پر آپ شافعی مسلک اختیار کرنا چاہتے ہیں تو یہ وجوہ تبدیلی مسلک کے لیے کافی نہیں اور غالباً آپ کو حنفی مسلک کے دلائل کا علم نہیں اس وجہ سے آپ یہ فیصلہ لینا چاہتے ہیں، میں دونوں مسئلوں کی کچھ دلیلیں لکھ دیتا ہوں، اگر آپ کو تفصیلاً دیکھنا ہے، تو مطالعہ غیرمقلدیت، ادلہٴ کاملہ وغیرہ کا مطالعہ کریں، ان شاء اللہ آپ اپنے ارادہ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

    امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کے دلائل: قال تعالیٰ: وَاِذَا قُرِئ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ جب قرآن شریف پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہواور خاموش رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اس کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک دفعہ نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو انھوں نے امام کے ساتھ قرأت کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ بوجھ اورعقل وخرد سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہورہی ہو تو اس کی طرف کان لگاوٴ اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے، (تفسیر ابن جریر: ۹/۱۰۲) اور مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَاِذَا قُرِئ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ․․․ یعني في الصلاة المفروضة ․․․․ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ وَاِذَا قُرِئ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا کا شان نزول فرض نماز ہے۔ نیز مسلم شریف، ابوداوٴد شریف، ابن ماجہ، مسند ابوعوانہ وغیرہ میں یہ روایت مذکور ہے و إذا قرأ فأنصتوا یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ جہاں تک رفع یدین نہ کرنے کا مسئلہ ہے تو اس کے دلائل درج ذیل ہیں، عن علقمة قال قال ابن مسعود إلا أصلي لکم صلاة رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فصلي فلم یرفع یدیہ إلا مرة حضرت علقمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر نہ دکھاوٴں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ رفع یدین کیا (مسند احمد: ج۱ ص۳۸۸ و ۴۴۲) عن مجاہد قال: صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة (ابن أبی شیبة: ۱/۲۳۷) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی پس آپ نماز میں صرف پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس کے بعد نماز میں کسی جگہ رفع یدین نہ کرتے تھے۔ امام مالک جو مدینہ منورہ کے امام ہیں، فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بھر کسی کو نہیں پہچانا جو پہلی تکبیر کے بعد رفع یدین کرتا ہو، آپ کی پیدائش ۹۰ ھ میں ہوئی ارو وفات ۱۷۶ھ میں ہوئی یہ خیرالقرون کا دور ہے امام مالک مدینہ منورہ کے امام ہیں۔ جہاں ہرملک اور ہرجگہ کے لوگ روضہ رسول کی زیارت کے لیے آتے ہیں لیکن امام مالک کسی ایک شخص کو بھی نہیں پہچانتے جو رفع یدین والی نماز پڑھتا ہو، بلکہ برملا اس رفع یدین کو ضعیف فرماتے ہیں۔ (المدونة الکبریٰ: ۱/۷۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند