عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 63997
جواب نمبر: 63997
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 727-818/L=8/1437 (۱ تا ۴) خواہشات نفسانی یا بلا ضرورت ایک امام کی تقلید چھوڑکر دوسرے امام کی تقلید درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی کو کسی امام کے مستدلات پر عبور حاصل ہو اور اس کے مستدلات سے اطمینان قلبی حاصل ہورہا ہو تو اس کے لیے اس امام کی تقلید کی گنجائش ہے، محض نفسانی خوہشات کی بنا پر مسلک تبدیل کرنا درست نہیں ہے، صورت مسئولہ میں آپ اگر محض نفسانی خواہشات کی بنا پر مسلک تبدیل کرنا نہیں چاہتے تو امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید کی گنجائش ہوتی لیکن ہندوستان جیسے ملک میں جہاں دوچار علاقہ کو چھوڑکر شوافع علماء یا ان کی کتب نہ ہونے کی وجہ سے امام شافعی کا اصل مسلک جاننا دشوار بلکہ ناممکن سا ہے اس لیے آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک پر برقرار رہیں، حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فإذا کان إنسان جاہل فی بلاد الہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ہناک عالم شافعي ولا مالکي ولا حنبلي ولا کتاب من کتب ہذہ المذاہب وجب علیہ أن یقلد لمذہب أبي حنیفة ویحرم علیہ أن یخرج من مذہبہ بأنہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقة الإسلام ویبقی سدی مہملاً (انصاف: ۷۰) جب کوئی جاہل عامی انسان ہند وستان اور ماوراء النہر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے) اور وہاں کوئی شافعی، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی تقلید کرے اور اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کردے کیونکہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھینکنا ہے اور مہمل وبیکار بن جانا ہے، واضح ہو کہ یہ اصولی بحث ہے قیاسی واجتہادی نہیں کما لا یخفی علی عالم․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند