عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 48746
جواب نمبر: 48746
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1349-287/D=1/1435-U قرآن وحدیث کے نصوص میں غور وفکر کرکے پیش آمدہ یا امکانی طور پر آئندہ پیش آنے والے مسائل وحوادث سے متعلق احکامِ شرعیہ کا استنباط کوئی امر مذموم نہیں ہے، بل کہ اہل علم کے لیے کسی حد تک ضروری ہے، کسی بھی روایت میں ممکن الوقوع مسائل کے احکام کے استنباط سے منع نہیں کیا گیا؛ بلکہ بعض احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے، چناں چہ ابن ماجہ میں ایک طویل حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خروج دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ایک دن ایک سال کے مانند ہوگا الخ․ تو صحابہ نے دریافت کیا فذلک الیوم الذي کسنة تکفینا فیہ صلاة یوم؟ یعنی کیا ایک سال کے مانند طویل دن میں ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: فاقدروا لہ قدرہ (ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۵، باب فتنة الدجال الخ) اس حدیث میں صحابہٴ کرام قربِ قیامت میں پیش آنے والے ایک حادثے سے متعلق حکم شرعی دریافت کررہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب بھی دے رہے ہیں، اگر آئندہ پیش آنے والے واقعات سے متعلق احکام شرعیہ کی تحقیق ہوتی تو صحابہٴ کرام پوچھتے ہی کیوں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب ہی کیوں دیتے؟ بلکہ ان کو منع کرتے، الغرض ممکن الوقوع مسائل کا حکم معلوم کرنا، قرآن وحدیث سے اس کی تحقیق کرنا ایک امر ممدوح بلکہ علماء کے لیے کسی حد تک ضروری ہے، استفتاء میں ”اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ“ نامی کتاب سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی جو روایت بلا کسی حوالہ وبلاسند نقدل کی گئی، بسیار تلاش کے باوجود نہیں مل سکی، اگر ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس سے مراد غیر ضروری اور بے جا سوالات جن کی نہ تو عملی زندگی میں ضرورت پڑسکتی ہے اور نہ اعتقادی میں، جب کہ محدثین اور مفسرین نے آیت کریمہ: لا تسألوا عن أشیاء الآیة کے تحت بہت سی روایتوں کو ذکر کیا (ملاحظہ ہو تفسیر بغوی، تفسیر ماوردی وغیرہ) استفتاء میں منقول باقی ہفوات سے متعلق عرض ہے کہ سیدنا ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق بڑے بڑے ائمہ، اسماء رجال کے ماہرین جلیل القدر محدثین کی طرف سے توصیفی اور توثیقی کلمات منقول ہیں، چناں چہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کو الإمام فقیہ الملة کا لقب دیا، ابن المبارک رحمہ اللہ نے آپ کو ”أفقہ أہل الأرض“ کے ساتھ متصف کیا، مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ سے آپ کے سلسلے میں ”کان أعلم الأرض“ کا جملہ منقول ہے۔ (ملاحظہ ہو البدایہ والنہایة، سیر أعلام النبلاء وغیرہ) اور مشہور موٴرخ علامہ ابن الاثیر نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو “الامام الاعظم“ کے لقب سے یاد کیا (مرآة الجنان وعبرة الیقظان) ان کے علاوہ بے شمار ائمہ، فقہاء اور محدثین ہیں جنھوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف وتوصیف کی۔ اب ان جلیل القدر حضرات کے مقابل اس زمانے کے متعصب کم علم سلف کی شان میں گستاخی کرنے والے گمراہ نام نہاد مدعیانِ عمل بالحدیث کی باتوں کی کیا حیثیت ہے؟ بہرحال جس شخص کا آپ نے حوالہ دیا انتہائی درجے کا متعصب اور گستاخِ سلف صالحین ہے، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو اس پر تعزیر کرتی، ایسا شخص فاسق اورحددرجہ گمراہ ہے، اس کے بے سرو پا باتوں کی طرف التفات ہی نہ کرنا چاہیے، وإذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند